غفلت

Tue, 06/13/2017 - 09:56

خلاصہ: غفلت حقیقت میں تمام برائیوں کی کنجی ہے، غفلت کی وجہ سے انسان بہت سے اجر و ثواب سے محروم رہ جاتا ہے، انسان کے اجر و ثواب میں کمی غفلت کی وجہ سے ہی ہوتی ہے، لہذا غفلت سے نجات میں سعادت ہے، بندگی کے اعلی درجوں تک پہونچنے کیلیے غفلت سے دوری لازمی امر ہے۔

غفلت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     غفلت دل کی بیماریوں میں سے ایک سنگین ترین بیماری ہے، غفلت انسان کو تمام اچھے کاموں سے دور ہونے کا سبب ہے، غفلت انسان کی تمام برائیوں کا سبب ہوتی ہے کیونکہ غافل انسان کبھی بھی خدا اور اچھے کاموں کی طرف راغب نہیں ہوتا، دائمی ذکرِ الہی، تلاوتِ قرآن، اہل علم کی صحبت، بری محفلوں سے اجتناب، فانی دنیا کی معرفت، گناہوں سے دوری اور موت کی یاد غفلت سے دور ہونے کے لئے اہم ترین اسباب ہیں۔
     غفلت کے نقصانات بہت زیادہ ہیں جس کی طرف خداوند متعال نے قرآن مجید میں اس طرح اشارہ فرمایا ہے: «وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ[سورۂ حشر، آیت:۱۹] اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے خدا کو بھلادیا تو خدا نے خود ان کے نفس کو بھی بھلا دیا اور وہ سب واقعی فاسق اور بدکار ہیں»
     کیونکہ غفلت انسان کے نیک کاموں کے لئے بہت بڑی رکاٹ ہے اسی لئے اس مضمون میں غفلت سے بچنے کے چند اسباب کو بیان کیا جارہا ہے۔:

۱۔ اللہ کا ذکر(یاد)
     ہر حال میں اللہ کا ذکر غفلت سے دوری کا سبب بنتا ہے کیونکہ ذکر دل کو زندہ رکھتا ہے اور شیطان کو دور بھگاتا ہے، روح کا پاک کرتا ہے، بدن میں نیکی کرنے کیلئے قوت پیدا کرتا ہے اور خواب غفلت سے ببیدار کرتا ہے، اسی طرح دائمی طور پر ذکر میں مشغول رہنے سے انسان گناہوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
     رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) نے اللہ کے ذکر کی اہمیت کو مدّنظر رکھتے فرمایا: «وَ اعْلَمُو اَنَّ خَیْرَ اَعْمَالِکُمْ عِندَ مَلِیکِکُمْ وَاَزکَاھَا وَ اَرْفَعَھَا فِی دَرَجَاتِکُمْ وَ خَیْرَمَا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ ذِکْرُ اﷲِ سُبحٰانَہ وَ تَعٰالیٰ فَاِنَّہ اَخْبَرَ عَنْ نَفْسِہِ فَقَالَ: اَنَا جَلیسُ مَنْ ذَکَرَ نِی[۱] جان لو کہ تمھارے مالک کے نزدیک تمہارے بہترین اعمال اور ان میں جو سب سے زیادہ پاکیزہ اور بلندترین درجہ والے اعمال ہیں اور بہترین چیز جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے ان سب سے بہتر اللہ کا ذکر ہے کیونکہ خدائے متعال اپنے بارے میں خبر رکھتا ہے اور فرماتا ہے: میں اس کا ہمنشیں ہوں جو مجھے یاد کرتا ہے»۔

۲۔  زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت
     قرآن کریم کی تلاوت بھی غفلت سے محفوظ رکھتی ہے، قرآن کی تلاوت میں دلوں کیلئے شفا ہے، تلاوت ہمیں ہر قسم کی نیکی اور بھلائی کرنے پر ابھارتی ہے اور ہر قسم کے گناہوں سے روکتی ہے، جس کے بارے میں خدا وند متعال اس طرح فرمارہا ہے: «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ[سورۂ اسراء، آیت: ۸۲] اور ہم قرآن میں وہ سب کچھ نازل کررہے ہیں جو صاحبان هایمان کے لئے شفا اور رحمت ہے»۔
     قرآن کی تلاوت کے بارے میں بہت زیادہ روایتں وارد ہوئی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے: «مَنْ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ فِي لَيْلَةٍ لَمْ‏ يُكْتَبْ‏ مِنَ الْغَافِلِين‏[۲] جو کوئی رات میں قرآن کی دس آیتوں کی تلاوت کریگا اس کا شمار غفلت کرنے والوں میں نہیں ہوگا»، قرآن کی تلاوت غفلت سے دوری کا ایک سبب ہے۔

۳۔ علماء کے ساتھ نشتست و برخاست
     علمائے کرام اور نیک لوگوں کی ساتھ بیٹھنے سے بھی انسان غفلت سے محفوظ رہتا ہے کیونکہ وہ اللہ کی یاد دلاتے ہیں اور شرعی علوم سے بہرہ ور کرتے ہیں جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح فرمارہا  ہے: «وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا[سورۂ کہف، آیت:۲۸] اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر پر آمادہ کرو جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلب گار ہیں اور خبردار تمہاری نگاہیں ان کی طرف سے پھر نہ جائیں کہ زندگانی دنیا کی زینت کے طلب گار بن جاؤ»۔

۴۔ برے لوگوں کےساتھا نشست و برخاست سے اپنے آپ کو بچانا
    لہو و لعب، فسق و فجور اور برے دوستوں کی محفل سے دوری بھی غفلت سے بچنے کا سبب ہے جس کے بارے میں خداوند متعال فرمارہا ہے: «وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ[سورۂ نساء، آیت:۱۴۰] اور اس نے کتاب میں یہ بات نازل کردی ہے کہ جب آیااُ الٰہی کے بارے میں یہ سنو کہ ان کا انکار اور استہزائ ہورہا ہے تو خبردار ان کے ساتھ ہرگز نہ بیٹھنا جب تک وہ دوسری باتوں میں مصروف نہ ہوجائیں ورنہ تم ان ہی کے مثل ہوجاؤ گے»۔

۵۔  آخرت کی یاد
     فانی دنیا سے آشنائی بھی غفلت سے نجات کیلئے معاون ثابت ہوتی ہے، اگر دنیا کی چمک دمک سے دھوکہ نہ کہائے اور آخرت کو نہ بھولیں تو انسان غفلت سے بچ جاتا ہے، دنیا کی محبت بہت سے لوگوں کو آخرت اور راہِ ہدایت پر چلنے سے روکتی ہے، جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح فرمارہا ہے: «حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ، لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ[سورۂ مؤمنون، آیت:۹۹ و۱۰۰] یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے، شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں. ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم ه برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے»۔

۶۔ گناہوں سے دوری
     گناہوں سے دوری غفلت سے بچنے کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ انسان جب بھی کوئی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ اس کی غفلت کی وجہ سے ہوتا ہے، خداوند متعال جس کے بارے میں اس طرح فرمارہا ہے: «إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ، وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لَا يُقْصِرُونَ[سورۂ اعراف، آیت:201 اور202] جو لوگ صاحبان هتقویٰ ہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال چھونا بھی چاہتا ہے تو خدا کو یاد کرتے ہیں اور حقائق کو دیکھنے لگتے ہیں، اور مشرکین کے برادران شیاطین انہیں گمراہی میں کھینچ رہے ہیں اور اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے ہیں»۔

نتیجه:
    غفلت حقیقت میں تمام برائیوں کی کنجی ہے، غفلت کی وجہ سے انسان بہت سے اجر و ثواب سے محروم رہ جاتا ہے، انسان کے اجر و ثواب میں کمی غفلت کی وجہ سے ہی ہوتی ہے، لہذا غفلت سے نجات میں سعادت ہے، بندگی کے اعلی درجوں تک پہونچنے کیلیے غفلت سے دوری لازمی امر ہے، یہی وجہ ہے کہ غفلت سے بچاؤ کی صورت میں دنیاوی سزاؤں سے تحفظ ملتا ہے اور مرنے کے بعد دائمی نعمتیں بھی حاصل ہوتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] بحار الانوار، محمد باقرمجلسى،  ج۹۰، ص۱۶۳، دار إحياء التراث العربي ،بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق.
[۲] امالي، ابن بابويه، ص۵۹، كتابچى‏، تهران‏، ۱۳۷۶ش.

kotah_neveshte: 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     انسان کوغفلت اور غفلت کے مضر اثرات سے محفوظ کرنے کا سب سے عظیم سبب موت اور اس کے بعد ہونے والے امور کی یاد دہانی ہے؛ کیونکہ موت بلیغ ترین نصیحت ہے، موت دیکھی سنی چیز ہے، اسے یقینی طور پر چکھنا ہے، موت اچانک آتی ہے، اور یقینی طور پر آ کر رہتی ہے۔
     لہذا جو شخص موت کو جتنا یاد رکھے گا اس کا دل اتنا ہی بہتر ہو گا، اس کے اعمال پاکیزہ ہوں گے، وہ غفلت سے سلامت رہے گا۔
     موت کے وقت مؤمن کو خوشی ہوتی ہے جبکہ فاجر آدمی ندامت کا شکار ہو جاتا ہے وہ واپس جانے کی تمنا کرتا ہے، لیکن اس کی یہ تمنا کون پوری کرے: «حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ، لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ[سورۂ مؤمنون، آیت: 99 اور 100] یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے، شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں. ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم ه برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے»۔
     قیامت پر ایمان کے اثرات میں سے یہ ہے کہ انسان کی روح ہمیشہ اس ایمان سے زندہ  رہتی ہے، وہ جانتا ہے کہ اگر وہ کبھی کسی مظلومیت یا محرومیت سے دچار ہوا ہے، تو ایک دن آنے والا ہے جب انتقام لیا جائے گا اور اس کا حق اسے واپس ملے گا اور وہ جو بھی نیک کام انجام دے گا ایک دن اس کی بہترین صورت میں تجلیل و تعظیم کی جائے گی۔
 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
6 + 14 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 69