خلاصہ: غیبت امام زمانہ (عج اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے اسباب میں فقط جان کی حفاظت ہی سبب نہیں ہے کہ (جیساکہ مشہور ہے) بلکہ اور بھی اسباب ہیں اور اصلی حکمت خدا وند متعال ہی جانتا ہے ۔
بعض علماءکا کہنا ہے کہ : امام زمانہ ( عج اللہ تعالی فرجہ الشریف )کی غیبت ستمگروں کے ڈر سے ہے،پس جب یہ ڈر ختم ہو جائے اور قدرت شیعوں کے ہاتھ میں آجائے گی تو غیبت بھی ختم ہو گائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مثال کے طور پر عبیدیوں(فاطمیوں) کی حکومت، آل بویہ اور صفویوں کی حکومت شیعوں کے ہاتھ میں تھی یا ابھی ایران کی حکومت ہے تو بس اب غیبت کیوں باقی ہے ؟
یاد رہےکہ امام زمانہ ( عج اللہ تعالی فرجہ الشریف ) کی زندگی،لوگوں کی زندگی سے الگ نہیں ہے بلکہ امام لوگوں کے درمیان موجود ہیں اور ایک عادی زندگی بسرکر رہے ہیں ۔ہاں امام (عج) لوگوں کو دیکھ رہے ہیں اور انہیں پہچانتے بھی ہیں لیکن لوگ انہیں نہیں پہچانتے اور جب خداوند متعال کی طرف سےارادہ ہو گا تو امام ظھور فرمائیں گے اور پھر ہر انسان انہیں دیکھ سکے گا اور پہچان سکے گا ۔
امام زمانہ ( عج اللہ تعالی فرجہ الشریف ) کی غیبت کا اہم سبب ان کی جان کی حفاظت بتایا جاتا ہے لیکن اسکے علاوہ اور بھی حکمتیں ذکر ہوئی ہیں :
1۔ احکام الہی کو پہنچانے کے لیے زمینہ فراہم کرنا ۔
ہر امام کے اندر نبی کی ساری خصوصیات پائی جاتی ہیں فقط آیات کا نزول نہیں ہوتا اور امام معصوم تین اعتبار سےمورد توجہ قرار پاتے ہیں :
ا۔ حکومت اسلامی کے اعتبار سے ۔
ب۔ معارف اور احکام اسلامی کے اعتبار سے ۔
ج۔ معنوی زندگی کے رشد کے اعتبار سے ۔
یہ تین مرحلے ایسے ہیں کہ ایک پیشوا ،رہبر،امام کے ضروری ہیں ۔[1]
2۔ مؤمنین اور منتظرین کی بخشش کی امید۔
3۔ شخصی افکار کا دفاع اور خدا کے دین کی حفاظت۔
4۔ تربیت اور خود سازی۔
5۔امام زمانہ ( عج اللہ تعالی فرجہ الشریف ) بادلوں میں چھپے سورج کی مانند ہیں اور لوگ ان کے نور سے بہرہ مند ہو رہے ہیں ، اور امامت وہی نبیوں کے راستے کا تسلسل ہے ۔[2]
یہ بات قابل ذکر ہے کہ امام زمانہ ( عج اللہ تعالی فرجہ الشریف ) کی غیبت ایسا نہیں کہ وہ غار میں غایب ہو گئے بلکہ وہ لوگوں کے درمیان موجود ہیں لیکن کوئی نہیں جانتا کہ یہ وہی مہدی موعود ہیں [3]
کیونکہ مولائے کائنات نے فرمایا : «بلى لَا تَخْلُو الْأَرْضُ مِنْ قَائِمٍ لِلَّهِ بِحُجَّةٍ إِمَّا ظَاهِراً مَشْهُوراً وَ إِمَّا خَائِفاً مَغْمُوراً لِئَلَّا یَبْطُلَ حُجَجُ اللَّهِ وَ بَیِّنَاتُه»؛[4]
ہاں کبھی بھی زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی چاہے وہ ظاہری حالت میں ہوں یا غیبت میں (یعنی لوگ انہیں نہ پہچان سکیں گے)
مولائے کائنات کا کلام ہمیں یہ سمجھا رہا ہے کہ امام ہمارے درمیان ہیں ۔[5]
جیسا کہ ہم نے کہا امام زمانہ ( عج اللہ تعالی فرجہ الشریف ) سورج کی مانند ہیں کہ جو بادلوں میں چھپا ہے لیکن پھر بھی لوگ اس کے نور سے استفادہ کر رہے ہیں ۔[6]
نتیجہ
یہ ساری بات پڑھنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ امام زمانہ ( عج اللہ تعالی فرجہ الشریف ) کی غیبت کی علت فقط جان کی حفاظت نہیں ہے بلکہ اور حکمت بھی شامل ہیں اور اصلی حکمت تو فقط خدا وند متعال ہی جانتا ہے ۔
......................
حوالہ جات
[1]. طباطبایی، محمد حسین، شیعه در اسلام، ص 175 – 176، دفتر نشر اسلامی، قم، چاپ سیزدهم، 1378ش.
[2].آل یاسین، محمد حسن، أصول الدین، ص 276، مؤسسه آل یاسین، قم، چاپ اول، 1413ق؛ سبحانى، جعفر، الإلهیات على هدى الکتاب و السنة و العقل، ج 4، ص 13، المرکز العالمی للدراسات الإسلامیة، قم، چاپ سوم، 1412ق.
[3]. «رُوِیَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُثْمَانَ الْعَمْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: وَ اللَّهِ إِنَّ صَاحِبَ هَذَا الْأَمْرِ لَیَحْضُرُ الْمَوْسِمَ کُلَّ سَنَةٍ یَرَى النَّاسَ وَ یَعْرِفُهُمْ وَ یَرَوْنَهُ وَ لَا یَعْرِفُونَهُ»؛ شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، محقق و مصحح: غفارى، على اکبر، ج 2، ص 520، دفتر انتشارات اسلامى، قم، چاپ دوم، 1413ق.
[4]. ثقفی، ابراهیم بن محمد، الغارات أو الإستنفار و الغارات، محقق و مصحح: حسینی، عبدا لزهراء، ج 1، ص 91، دار الکتاب الإسلامی، قم، چاپ اول، 1410ق؛ شریف الرضى، محمد بن حسین، نهج البلاغة، محقق و مصحح: صبحی صالح، ص 497، هجرت، قم، چاپ اول، 1414ق
[5]. سید رضی، تنبیه الغافلین و تذکرة العارفین، مترجم: کاشانی، ملا فتح الله، ج 2، ص 669، انتشارات پیام حق، تهران، چاپ اول، 1378ش؛ بحرانی، میثم بن علی، شرح نهج البلاغه، ج 5، ص 326، دفتر نشر الکتاب، بیجا، چاپ دوم، 1362ش.
[6]. ر.ک: شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، ج 1، ص 207، دار الکتب الاسلامیة، تهران، چاپ دوم، 1395ق.
Add new comment