خلاصہ: حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) نے کسی کے سوال کے مطابق جامع اور مختصر نصیحت فرمائی، جس میں آپ نے دنیا کی ذلت اور آخرت کی آگ سے بچنے کی نصیحت کی۔ اس مقالہ میں دنیا کی ذلت سے بچنے کے بعض اسباب بیان ہوئے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عزت کو پسند کرنا اور ذلت سے نفرت کرنا، فطری چیز ہے جو ہر انسان کے وجود میں اللہ تعالی نے قرار دی ہے، عزت کو نکھار دینے کے لئے کچھ اسباب فراہم ہونے چاہئیں جن پر توجہ نہ دینا، ذلت اور شکست کو قبول کرلینے کا باعث بنتا ہے۔ عزت ایسی کیفیت ہے جو انسان کی شکست کو روک لیتی ہے اور ذلت، عزت کا نہ ہونا ہے، اسی لیے ذلیل انسان، شکست کو آسانی سے قبول کرلیتا ہے۔ جو انسان عزت کے میٹھے ذائقہ کو چھک لے وہ ہرگز ذلت کے سامنے تسلیم نہیں ہوگا۔
کسی شخص نے حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) سے عرض کیا: "اَوصِنى بَوَصِیَّةٍ جامِعَةٍ مُخْتَصَرَةٍ"، "مجھے جامع اور مختصر نصیحت فرمائیں"، آپؑ نے فرمایا: "صُنْ نَفْسَكَ عَنْ عارِ الْعاجِلَةِ وَ نار الْآجِلَةِ"[1]، "اپنے آپ کو دنیا کی ذلت اور آخرت کی آگ سے بچا۔
اسی روایت سے ملتی جلتی اور ایک روایت بھی ہے جو حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے منقول ہے کہ آپؐ نے فرمایا:" ألكِذْبُ فِى العاجِلَةِ عارٌ وَ فِى الاجِلَةِ عَذابُ النّارِ" [2]"جھوٹ دنیا میں ذلت (کا باعث) ہے اور آخرت میں آگ کے عذاب (کا باعث) ہے"۔
حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) نے جو مذکورہ بالا حدیث میں دنیا کی ذلت اور آخرت کی آگ سے بچنے کی نصیحت فرمائی ہے تو اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس ذلت کے اسباب کیا ہیں جن کی پہچان کرتے ہوئے ہمیں ان سے بالکل پرہیز کرنا چاہیے تا کہ دنیا میں ذلت کا شکار نہ ہوجائیں
ذلت کے کئی اسباب ہیں، جن میں سے چند کو بیان کرتے ہوئے تشریح کی جائے گی:
۱۔ لوگوں سے مانگنا: بعض لوگ زندگی کی ضرورت کو پورا کرنے اور بعض لوگ مادی فائدوں کے حصول کی خاطر ذلت کو خرید لیتے ہیں اور اپنی انسانی شرافت و کرامت کو داغدار کردیتے ہیں۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مال و دولت تک پہنچنے اور رنگین زندگی بنانے کے لئے، لوگوں سے مانگ کر ذلت خریدی جاسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب ہم حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے سنتے ہیں، آپ فرماتے ہیں: "ساعَةُ ذُلٍّ لا تَفِي بِعِزِّ الدَّهرِ[3]"، "ایک گھڑی کی ذلت سارے زمانے کی عزت سے برابری نہیں کرتی"۔ نیز آپ ہی فرماتے ہیں: "التَّقَلُّلُ و لا التَّذَلُّلُ[4]"، "تھوڑے پر راضی ہوجاو اور ذلت میں نہ پڑو"۔
۲۔ گناہ: گناہ انسان کی عزت کو نقصان پہنچاتا ہے اور انسان کے وجود میں ذلت کا بیج بو دیتا ہے اور انسان جتنا زیادہ گناہ کا ارتکاب کرتا چلا جائے گا اتنی ہی زیادہ ذلت اس کے وجود میں نمودار ہوتی چلی جائے۔
جو آدمی اپنی شرافت، کرامت، عزت نفس اور سعادت کا خواہشمند ہے اگر جہالت، نااہل دوست یا معاشرے اور ماحول کی وجہ سے گناہ کا ارتکاب کربیٹھے تو اسے چاہیے کہ اللہ کی رحمت و فضل پر امید رکھتے ہوئے جلد از جلد توبہ اور استغفار کرلے تاکہ اپنے آپ کو بدبختی، عذاب اور ذلت سے بچا لے اور انسانی عزت و عظمت کو اپنے وجود میں زندہ کرلے۔ ان گناہوں میں سے ایک گناہ تکبر ہے جو انسان کی ذلت کا باعث بنتا ہے۔ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "مَن تَكَبَّرَ علَى النّاسِ ذَلَّ[5]"، "جو شخص لوگوں پر تکبر کرے، ذلیل ہوجائے گا"۔
نیز حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "مَن تَلَذَّذَ بمعاصِي اللّه ِ أورَثَهُ اللّه ُ ذُلاًّ"[6] "جو شخص اللہ کی نافرمانی سے لذت حاصل کریگا، اللہ اسے ذلت میں ڈال دے گا"۔
۳۔ لالچ: دنیاوی اور مادی چیزوں میں لالچ کرنا ایسی بری صفت ہے جو آدمی کو سراسر تکلیف میں ڈال دیتی ہے۔ لالچی آدمی کا پیٹ ہرگز نہیں بھرتا اور وہ ہمیشہ فقیر رہتا ہے، لہذا اگر ساری دنیا کا مالک بھی بن جائے تب بھی فقیر ہے، کیونکہ پھر بھی اس کی لالچ جاری ہے، اگرچہ مال بڑھتا رہا، لیکن لالچ میں کمی نہیں آئی کیونکہ اس کی نظر میں زیادہ مال بھی کم ہے۔ لالچ ایسی کیفیت ہے جو انسان کو ہلاکت کے گھاٹ اتار دیتی ہے چونکہ لالچی آدمی دنیا کی محبت کی وجہ سے اتنی تیزی اور جلدبازی سے چل رہا ہوتا ہے کہ وہ اپنے آس پاس پیش آنے والے خطروں کو بھی نہیں دیکھ سکتا لہذا ہلاکت کے گڑھے میں جا گرتا ہے، بنابریں لالچ وہ بری صفت ہے جو ذلت کا باعث بنتی ہے۔
حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "الطَّمَعُ أحَدُ الذُّلَّينِ[7]"، "لالچ دو ذلتوں میں سے ایک ہے"۔
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "لا ذُلَّ كَذُلِّ الطَّمَعِ[8]"، "کوئی ذلت لالچ کی ذلت کی طرح نہیں ہے"۔
۴۔ من گھڑت عزت: انسان اپنے فائدہ اور نقصان کے تمام پہلووں سے مطلع نہیں ہے، بعض چیزوں میں اپنا فائدہ سمجھتا ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد دیکھ لیتا ہے کہ یہ تو نقصان ہی نقصان تھا۔ بعض چیزوں کو اچھا سمجھتا ہے جبکہ حالات کے بدلنے سے اور وقت کے گزرنے سے اس کے لئے واضح ہوجاتا ہے کہ اس میں کوئی خوبی نہیں تھی اور بالکل بری چیز تھی، اسی طرح ہوسکتا ہے انسان بعض باتوں، کاموں اور حرکتوںکو اپنی عزت کا باعث سمجھ لے اور لگاتار دن رات عزت کے حصول کے لئے محنت کرتا رہے، لیکن کچھ عرصہ کے بعد واضح ہوجائے کہ اس میں کسی قسم کی عزت نہیں تھی بلکہ مکمل طور پر ذلت تھی، لہذا انسان کو چاہیے کہ ہر بات اور عمل میں منجملہ عزت کے اسباب میں دینی تعلیمات کی طرف توجہ دے اور قرآن و اہل بیت (علیہم السلام) کے عظیم معارف کی روشنی میں عزت کے اسباب کو تلاش کرے، کیونکہ ہوسکتا ہے کوئی چیز دین کی نظر میں عزت نہ ہو بلکہ ذلت ہو۔ اسی لیے حق کے میزان، حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے عزت و ذلت کا میزان اور معیار قائم کردیا، آپؑ ارشاد فرماتے ہیں: "كُلُّ عِزٍّ لا يُؤَيِّدُهُ دِينٌ مَذَلَّةٌ[9]"، "جس عزت کی دین تائید نہ کرے، وہ ذلت ہے"۔
۵۔ بےجا خوف: حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) سے دریافت کیا گیا کہ ذلت کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: "الفَرَقُ عِندَ المَصدُوقَةِ[10]"، "حقیقت کے سامنے خوف".
۶۔ جھوٹ: مضمون کی ابتدا میں جو حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سے روایت بیان ہوئی کہ آپ فرماتے ہیں ألكِذْبُ فِى العاجِلَةِ عارٌ وَ فِى الاجِلَةِ عَذابُ النّارِ"، "جھوٹ دنیا میں ذلت (کا باعث) ہے اور آخرت میں آگ کے عذاب (کا باعث) ہے"، اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح رہے کہ قرآن کریم اور اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات میں جھوٹ کی شدت سے مذمت ہوئی ہے اور یہ ایسی بری صفت ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں جھوٹ بولنے والے کو نقصان دیتی ہے۔ دنیا میں ذلت کا باعث ہے اور آخرت میں عذاب کا باعث ہے۔ جھوٹا آدمی گھریلو اور معاشرتی زندگی میں اعتماد اور اعتبار کھو بیٹھتا ہے۔ جب جھوٹے آدمی کا جھوٹ پکڑا جاتا ہے اور حقیقت کے خلاف اس کی بتائی ہوئی بات کھل کر منظر عام پر آجاتی ہے تو اس کا جھوٹ لوگوں کے سامنے اس کی بے عزتی اور ذلت و خواری کا باعث بن جاتا ہے، لوگ جھوٹے آدمی سے دوستی کرنے، رابطہ رکھنے اور لین دین کرنے سے نفرت کرتے ہیں اور اسی طرح ہی ہونا چاہیے۔
نتیجہ: حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی اس بصیرت افروز حدیث اور دیگر ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی احادیث کو اگر ہر انسان اپنا نصب العین بنالے اور زندگی کے قدم قدم پر خیال رکھے کہ ایسا کام نہ کرے جو دنیا میں اس کی ذلت کا باعث ہو اور آخرت میں عذاب کا سبب بنے تو سب انسان ایسی پرسکوں زندگی گزار سکتے ہیں جس کا کوئی متبادل نہیں پایا جاتا، دنیا میں عزت کی زندگی بسر کریں گے اور آخرت میں ثواب اور مقام پائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] موسوعة الإمام الجواد: ج2، ص329۔
[2] غرر الحكم : 1708۔
[3] غرر الحكم: 5580۔
[4] غرر الحكم: 362۔
[5] ميزان الحكمہ: ج10، ص34۔
[6] غرر الحكم: 8823
[7] غرر الحكم: 1645۔
[8] تحف العقول: 286 ۔
[9] غرر الحكم: 6870۔
[10] ميزان الحكمہ: ج4، ص259۔
Add new comment