خلاصہ: حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) نے جامع اور مختصر الفاظ میں دو فقروں پر مشتمل نصیحت فرمائی جس کا دوسرا حصہ آخرت کی آگ سے بچنے کی نصیحت ہے، اس مقالہ میں آخرت کے عذاب کے بعض اسباب کا تذکرہ کیا ہے اور ساتھ مختصر وضاحت بھی کی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کے ایام شہادت کی مناسبت سے آنحضرت کی ایک حدیث بیان کی جارہی ہے۔ اس تحریر میں اس حدیث کے دو قیمتی گوہروں پر آیات و روایات کی روشنی میں گفتگو کی جائے گی۔
کسی نے حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) سے عرض کیا: "اَوصِنى بَوَصِیَّةٍ جامِعَةٍ مُخْتَصَرَةٍ"، "مجھے جامع اور مختصر نصیحت فرمائیں"، آپؑ نے فرمایا: "صُنْ نَفْسَكَ عَنْ عارِ الْعاجِلَةِ وَ نار الْآجِلَةِ[1]"، "اپنے آپ کو دنیا کی ذلت اور آخرت کی آگ سے بچا۔
اسی روایت سے ملتی جلتی اور ایک روایت بھی ہے جو حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے منقول ہے کہ آپؐ نے فرمایا:" ألكِذْبُ فِى العاجِلَةِ عارٌ وَ فِى الاجِلَةِ عَذابُ النّارِ" [2]"جھوٹ دنیا میں ذلت (کا باعث) ہے اور آخرت میں آگ کے عذاب (کا باعث) ہے"۔
حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) جن کا ایک مشہور لقب "جواد" ہے، آپ نے جو مذکورہ بالا حدیث میں دنیا کی ذلت اور آخرت کی آگ سے بچنے کی نصیحت فرمائی ہے تو اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس آگ کے اسباب کیا ہیں جن کی پہچان کرتے ہوئے ہمیں ان سے بالکل پرہیز کرنا چاہیے تا کہ ہم آخرت میں آگ کا لقمہ نہ بن جائیں۔
اختصار کے پیش نظر صرف چند اسباب کا یہاں پر تذکرہ کیا جارہا ہے:
۱۔ کفر اور نفاق: "إِنَّ اللَّـهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا[3]"، "خدا کفار اور منافقین سب کو جہنّم میں ایک ساتھ اکٹھا کرنے والا ہے"۔
حجت الاسلام قرائتی لکھتے ہیں کہ آخرت کی ہمنشینی، دنیا کی ہمنشینی کا نتیجہ ہے۔[4]
۲۔ اللہ تعالی اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی: "وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا"[5]، "اور جو اللہ و رسول کی نافرمانی کرے گا اس کے لئے جہنّم ہے اور وہ اسی میں ہمیشہ رہنے والا ہے"۔
البتہ علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ ان سے مراد کفار اور اصول دین کے منکرین ہیں.[6]
۳۔ آیات الہی کا مذاق اڑانا: "ذَٰلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا"[7]، "ان کی جزا ان کے کفر کی بنا پر جہنّم ہے کہ انہوں نے ہمارے رسولوں اور ہماری آیتوں کو مذاق بنا لیا ہے "۔
جب آدمی حقیقت اور حق کے حامل شخص کا مذاق اڑانے لگے تو وہ ضد اور ہٹ دھرمی کے پست ترین مراحل تک پہنچ چکا ہے اور دروازہ کو اپنے سامنے بند کردیا ہے اور دل کی سختی تک پہنچ چکا ہے۔[8]
۴۔ شیطان کی پیروی: "قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَّدْحُورًا لَّمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكُمْ أَجْمَعِينَ"[9]، "فرمایا کہ یہاں سے نکل جا تو ذلیل اور مردود ہے اب جو بھی تیرا اتباع کرے گا میں تم سب سے جہنّم کو بھردوں گا"۔
لہذا اگرچہ ابلیس صراط مستقیم پر گھات لگائے بیٹھا ہے اور مسلسل وسوسے پیدا کرتا ہے، لیکن گنہگار خود شیطان کی طرف جاتا ہے اور جہنمی بنتا ہے اور شیطان کی پیروی جہنم میں اس کے ساتھ ہمنشینی کا باعث ہے۔
۶۔ غفلت: "وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَـٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ"[10]، "اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہنّم کے لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں ہیں- یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ اصل میں غافل ہیں"۔
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ غافل لوگ حیوانوں سے بھی بدتر ہیں۔ غفلت باعث بنتی ہے کہ انسان مقصد، اللہ، خود، دنیاوی نعمتوں اور آخرت اور اللہ کی مختلف آیات کو نظرانداز کرتے ہوئے طرح طرح کے گناہوں میں پڑجائے اور پھر انجام جہنم ہو۔
۷۔ دنیاپسندی اور آخرت کو بھول جانا: "مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا"[11]، "جو شخص بھی دنیا کا طلب گار ہے ہم اس کے لئے جلد ہی جو چاہتے ہیں دے دیتے ہیں پھر اس کے بعد اس کے لئے جہنّم ہے جس میں وہ ذلّت و رسوائی کے ساتھ داخل ہوگا"۔
دنیا پسندی بری چیز ہے، انسان کی خواہشات لامحدود ہیں، لہذا اسے اللہ تعالی کے ارادہ کے مطابق اپنی خواہشات کو محدود کرنا چاہیے۔ دنیا کے خواہشمند لوگ شاید کچھ شہرت اور دیگر خواہشات تک پہنچ جائیں لیکن ان کی آخرت تباہ و برباد ہے۔ دنیا پسندی کا انجام جہنم ہے، ایسے لوگ آگ میں بھی جلیں گے (جسمانی عذاب) اور ذلت و رسوائی کا بھی شکار ہوں گے (روحانی عذاب)۔
۸۔ بے گناہ مومن کو قتل کرنا: "وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا"[12]، "اور جو بھی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردے گا اس کی جزا جہنّم ہے- اسی میں ہمیشہ رہنا ہے اور اس پر خدا کا غضب بھی ہے اور خدا لعنت بھی کرتا ہے اور اس نے اس کے لئے عذابِ عظیم بھی مہیّا کررکھا ہے"۔
اسلام، مسلمان کی جان اور لوگوں کے امان کو بہت اہمیت دیتا ہے اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کے لئے ہمیشہ کا عذاب مقرر کیا گیا ہے تا کہ قتل اور سنگین جرائم کی روک تھام ہوجائے۔ لہذا کوئی شخص بھی چاہے سیاسی شخصیت کیوں نہ ہو، مومن کو عمدا قتل کرنے کا اسے حق حاصل نہیں ہے۔
نتیجہ: حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی حدیث کے پیش نظر اگر انسان غور کرے کہ یہ جو آنحضرت نے آخرت کی آگ سے بچنے کی نصیحت فرمائی ہے تو کیا کرنا چاہیے کہ اس آگ سے انسان بچ جائے۔ اس کا حل یہ ہے کہ اگر قرآن کریم کی آیات اور اہل بیت (علیہم السلام) کے فرامین پر غور کیا جائے تو سب کچھ واضح طور پر بیان ہوچکا ہے، اگر آدمی قرآن و اہل بیت (علیہم السلام) کے کلام کو حق سمجھ کر اس پر قدم بہ قدم عمل پیرا ہوتا رہے تو یقیناً آخرت کے عذاب سے محفوظ ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] موسوعة الإمام الجواد، ج2، ص329۔
[2] غرر الحكم : 1708۔
[3] سورہ نساء، آیت ۱۴۰۔
[4] تفسير نور، ج2، ص: 41۔
[5] سورہ جن، آیت 23۔
[6] ترجمه الميزان، ج20، ص: 81۔
[7] سورہ کہف، آیت 106۔
[8] تفسير هدايت، ج6، ص: 492۔
[9] سورہ اعراف، آیت 18۔
[10] سورہ اعراف، آیت 179۔
[11] سورہ اسراء، آیت 18۔
[12] سورہ نساء، آیت 93۔
Add new comment