خلاصہ: اس مضمون میں مسجد میں حاضر ہونے کے فائدہ کو بیان کیا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسجد، زمین پر اللہ کا گھر ہے، نماز پڑھنے والے کے لئے برکات اور فیض الھی کے نازل ہونے کا مرکز ہے، مسجد میں جانے کے یقینا بہت زیادہ فائدے ہیں جو اس میں آنے والوں کو حاصل ہوتے ہیں جس کی طرف حضرت علی(علیہ السلام) اشارہ فرما رہے ہیں:«من اختلف الی المسجد اصاب احدی الثمان؛ اخا مستفادا فی الله، او علما مستطرفا او ایه محکمه او یسمع کلمه تدل علی هدی، او رحمه منتظره او کلمه ترده عن ردی، او یترک ذنبا خشیه اوحیاء[۱] جو کوئی مسجد میں رفت و آمد کرتا ہے اسے آٹھ فائدوں میں سے ایک فائدہ حاصل ہوتا ہے؛ ایسا بھائی جو اللہ کی راہ میں اسے فائدہ پہونچائے، یا اسے جدید علم حاصل ہوتا ہے، یا اپنے عقائد پر محکم دلیل ملتی ہے، یا وہ ایسے باتیں سنتا ہے جو اس کی ہدایت کا ذریعہ بنتی ہے، یا رحمت اس کے انتظار میں رہتی ہے، یا ایسی نصیحت اسے ملتی ہے جو اسے فساد سے روکتی ہے، یا وہ خوف یا حیاء کی وجہ سے گناہ کو ترک کر دیتا ہے».
مسجد کے بعض فائدوں کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:
۱۔ عبادی فائدہ
مسجد، اللہ اور بندہ کے درمیان ارتباط قائم کرنے کی جگہ ہے جہاں پر بندہ اپنی تمام مشغولیت اور مصروفیت کو چھوڑ کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے اور اس کے حکم کی بناء پر اس کی عبادت کرتا ہے تاکہ اس سے مرتبط ہو سکے جیسا کے خداوند عالم ارشاد فرما رہا ہے:« وَ أَقيمُوا وُجُوهَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَ ادْعُوهُ مُخْلِصينَ لَهُ الدِّينَ[سورہ اعراف، ایت:۲۹] اور تم سب ہر نماز کے وقت اپنا رخ سیدھا رکھا کرو اور خدا کو خالص دین کے ساتھ پکارو»۔
۲۔ علمی فائدہ
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور ائمہ(علیہم السلام) کے زمانے میں مسجد کو ان کاموں کے لئے استعمال کیا جاتا تھا جس کے بارے میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے ارشاد فرمایا ہے: « کل جلوس فی المسجد لغو الا ثلاثه: قرائه مصل او ذکرالله او سائل عن علم[۲] مسجد میں تین کاموں کے علاوہ بیٹھنا بیکار ہے: قرآن کا پڑھنا، اللہ کو یادکرنا،یا کوئی علمی سوال کرنا»۔
۳۔ اجتماعی فائدہ
مسجد تمام مؤمنین کے جمع ہونے کی جگہ ہے، اس لئے یہاں پر مؤمنین ایک دوسرے سے آشنا ہو سکتے ہیں اور مل جل کر ایک دوسرے کی اجتماعی مشکلوں کو حل کرسکتے ہیں، جیسا کہ اوپر حضرت علی(علیہ السلام)سے ایک حدیث کو نقل کیا گیا جس میں امام (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مسجد میں آنے والا گناہ کو ترک کردیتا ہے حیاء کی وجہ سے، کیونکہ وہ مسجد میں آتا ہے اور نیک لوگوں سے اس کی جان پہچان ہوتی ہے اسی لئے وہ گناہ کو حیاء کی وجہ سے ترک کرتا اگر کوئی ایک شخص گناہ کو ترک کرتا ہے تو اسے دیکھ کر دوسرے افراد بھی گناہ کو ترک کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک نیک اور سالم معاشرہ وجود میں آتا ہے، یہ مسجد کا ایک چھوٹا سا فائدہ ہے۔
۴۔ روحی فائدہ
مسجد کی فضا نورانی ہوتی ہے، جس کے بارے میں پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ارشاد فرمایا ہے:« ما جلس قوم فی مسجد من مساجد الله تعالی یتلون کتاب الله و یتدارسونه بینهم الا تنزلت علیهم السکینه و غشیتهم الرحمه و ذکرهم الله فیمن عنده[۳] لوگ مسجد میں اللہ کی کتاب کی تلاوت اور اس کو سمجھنے کے لئے نہیں بیٹھتے مگر یہ کہ ان پر سکون کو نازل کیا جاتا ہے اور رحمت ان کے شامل حال ہوتی ہے اور خدا ان لوگوں کو جو اس کے پاس ہیں انہیں یاد رکھتا ہے»۔
۵۔ اخروی فائدہ
مسجد میں حاضر ہونے والے کے لئے آخرت میں حدیثوں کےذریعہ بہت زیادہ اجر اور ثواب کو بتایا گیا ہے، جیسا کے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرما رہے ہیں: «المساجد سوق من اسواق الاخره قراها المغفره و تحفتها الجنه [۴]۔ مساجد آخرت کے بازاروں میں سے ایک بازار ہے، اس کا استقبال مغفرت ہے اور اس کا تحفہ جنت ہے»۔
نتیجہ: نقل ہے کہ شیخ الرئیس ابو علی سینا نے ابو سعید ابو الخیر کو لکھا: جب خداوند عالم رگ گردن سے زیادہ نزدیک ہے تو کیا ضروری ہے کہ لوٖگ مسجدوں میں جاکر عبادت کریں، لوگ جہاں پر بھی ہوں اگر وہ خدا سے رابطہ برقرار کرینگے تو یقینا خدا اس کی بات کو سننے والا ہے؟
ابو سعید نے جواب میں لکھا: اگر کچھ چراغ ایک جگہ پر روشن ہوں اور اگر ان میں سے ایک بجھ جائے تو اس وقت دوسرے چراغ موجود ہوتے جو روشنی دیرہے ہوتے ہیں، اور اگر وہ تمام چراٖغٖ الگ الگ کمروں میں ہوں اور ان میں سے ایک بجھ جائے تو وہ کمرہ پورا اندھیرا ہوجائے گا، انسان بھی اسی طرح ہے اگر مسجد میں آئیگا تو ایک دوسرے کو دیکھ کر گناہ سے محفوظ رہیگا اور اسلامی تعلیمات سے آشنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ محمد باقر ابن محمد تقی مجلسی، بحار الانوار، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ھ،ج۸۰، ص۳۸۱۔
[۲]۔ مذکورہ حوالہ، ج۷۴، ص۸۶۔
[۳]۔ حسین ابن محمد تقی نوری،مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل،مؤسسہ آل البیت(علیہم السلام)، ۱۴۰۸ھ،ق، ج۳، ص ۳۶۳۔
[۴]۔ بحار الانوار، ج۸۱، ص۴۔
Add new comment