مسجد کے فضائل قرآن و روایات کی روشنی میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: عالمی یوم مسجد کے موقع پر مسجد کے کچھ فضائل قرآن اور روایات کی روشنی میں بیان ہو رہے ہیں، نیز اس عالمی دن کے مقرر کرنے کی وجہ بیان ہوئی ہے جو صہیونیت نے مسجد الاقصی کو جلا کر تخریب کی تھی اور اس تخریب پر حضرت امام خمینی (علیہ الرحمہ) نے رد عمل دکھایا، جس سے مسجد کی اہمیت اور مقام واضح ہوتا ہے۔

مسجد کے فضائل قرآن و روایات کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس مضمون کو مسجد کے متعلق ایک دردناک حادثہ کی سالانہ برسی کے موقع پر تحریر کیا جارہا ہے، ابتدا میں مسجد کا مختصر تعارف، پھر مذکورہ حادثہ کا پس منظر بیان ہوگا، اس کے بعد قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کی روشنی میں مسجد پر گفتگو ہوگی تا کہ معلوم ہوجائے کہ مسجد، جس کا مقام اتنا عظیم ہے، اس کی تخریب کرنے والوں نے کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرلیا تھا۔

مسجد کا تعارف
مسجد، اسلام کی نظر میں اللہ تعالی کی عبادت کےلئے خاص جگہ ہے۔
لفظ مسجد "س ج د" سے لیا گیا ہے جو اسم مکان کے طور پر استعمال ہوا ہے اور اس کے معنی ہیں سجدہ یا عبادت کی جگہ۔ کہا گیا ہے کہ اس جگہ کو مسجد یعنی سجدہ کی جگہ اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ مسلمان، نماز میں سجدہ کرتے ہیں اور سجدہ عبادت میں خضوع کی انتہا ہے۔
ہوسکتا ہے مسجد عمارت ہو یا زمین ہو چاہے بڑی ہو یا چھوٹی اور سادہ سی، زمین کے اس حصہ کی دیوار ہو یا نہ ہو، قیمتی قالینیں اس میں بچھی ہوئی ہوں یا کم قیمت والی صفیں، اسکی چھت، گنبد اور منارے ہوں یا نہ ہوں۔
اسلامی شریعت میں، مسجد کے خاص احکام ہیں، مسجد سے عموماً اجتماعی عبادت اور گروپ کی صورت میں دینی سرگرمیوں کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے اور اہم ترین عبادت جو وہاں پر بجالائی جاتی ہے، نماز جماعت ہے۔ اس کے علاوہ مساجد، معاشرتی، سیاسی، تعلیماتی اور عدالتی لحاظ سے بھی مسلمانوں کے لئے مفید ثابت ہوتی رہی ہیں جن میں سے بعض فائدے اب تک باقی ہیں، مساجد کا ایران میں، ۱۳۵۷ شمسی میں انقلاب اسلامی کی کامیابی میں اہم کردار رہا۔

مسجد، اسلامی نقطہ نظر سے
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کے مطابق، اللہ تعالی کی عبادت اور نماز کا کسی خاص جگہ سے تعلق نہیں ہے، اسی لیے زمین کی کسی جگہ پر بھی اللہ تعالی کی عبادت کی جاسکتی ہے اور نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ جیسا آنحضرت کا ارشاد گرامی ہے: "جُعِلَت ليَ الأرضُ مَسجِداً و طَهوراً"[1]، "زمین میرے لئے سجدہ کی جگہ اور طہور قرار دی گئی ہے"۔ لہذا ہجرت سے پہلے نماز پڑھنے کے لئے مسلمانوں کی کوئی خاص جگہ نہیں تھی اور جہاں بھی ممکن ہوتا، نماز پڑھ لیتے تھے۔ مسجد قبا پہلی مسجد تھی جو اسلام میں بنائی گئی۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ایک ہفتہ قبا میں رہے اور اس عرصہ میں لوگوں کی پیشکش سے آنحضرت نے اس علاقہ میں ایک مسجد بنائی۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ مسجد عمار یاسر کی پیشکش سے بنائی گئی ہے۔[2]

عالمی یوم مسجد کا تاریخی پس منظر اور مسجد کا دفاع
صہیونیوں نے ۲۱ اگست ۱۹۶۹ میں مسجد الاقصی کے کچھ حصہ میں آگ لگادی جس کی وجہ سے اس مسجد کے بہت سارے نقصانات ہوئے، مسجد الاقصی کو جلانے میں کم سے کم مسجد کی چھت ۲۰۰ میٹر کے رقبہ میں بالکل جل گئی، مسجد کے گنبد کی پانچ جگہیں جل گئیں، مسجد میں آٹھ سو سال پرانا ایک قیمتی منبر جل کر ختم ہوگیا۔ صہیونیت کے اس جرم نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے غصہ کو ابھار دیا۔ اس افسوسناک حادثہ پر حضرت امام خمینی (علیہ الرحمہ) نے جو اس وقت نجف اشرف میں رہائش پذیر تھے، صہیونیت کو شدید ردعمل دکھاتے ہوئے یہ بیانیہ دیا جسے بغداد کے روزنامه «الجمهوريه» نے شائع کیا: " دینی راہنما حضرت آیت اللہ خمینی نے سب مسلمانوں سے یہ چاہا ہے کہ اپنی صفوں کو دشمن کے مقابلہ میں متحد کریں، حضرت آیت اللہ نے عراق خبرایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: اسلامی کانفرنس جو رباط میں منعقد ہوئی، مسلمانوں کی حمایت میں خدمت کا باعث نہیں بنی، بلکہ اس نے اسلام کے دشمنوں کی خدمت کی ہے، کیونکہ اس کانفرنس میں بعض شرکاء کی نیت ایماندارانہ نہیں تھی اور نیز اس کانفرنس کے شرکاء کے درمیان کچھ تضاد بھی پائے جاتے تھے۔ حضرت آیت اللہ نے یہ بھی کہا: جب تک مقبوضہ فلسطین کو آزاد نہیں کیا جاتا تب تک مسلمانوں کو مسجد الاقصی کی دوبارہ تعمیر نہیں کرنی چاہیے، انہیں چاہیے کہ صہیونیت کے جرم کو ہمیشہ مسلمانوں کی نظروں کے سامنے رہنے دیں اور فلسطین کی آزادی کے لئے کوشش کا باعث بنے"۔[3]
اس غمناک واقعہ کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران میں منعقد کی گئی کانفرنس میں، ۲۱ اگست کو "عالمی یوم مسجد " کا نام دیا گیا جسے ہر سال کانفرنس کی صورت میں منایا جاتا ہے اور اس اجلاس میں مختلف ممالک ممبر ہیں جنہیں مساجد کے متعدد اہداف اور کئی عناوین پر گفتگو کرنا ہوتی ہے۔

مسجد قرآن کریم کی روشنی میں
لفظ مسجد قرآن کریم میں مفرد یا جمع کی صورت میں ۲۸ بار ذکر ہوا ہے:
۱۵ بار "الحرام" کے بعد، ۵ بار "مسجد" کے عنوان سے، ۱ بار "الاقصی" کے بعد، ۱ بار لفظ "ضرار" کے ساتھ، ۶ مقامات میں یہ لفظ، جمع "مساجد" کی صورت میں استعمال ہوا ہے۔
لفظ "البیت" بہت سارے مقامات میں کعبہ یا مسجدالحرام کے معنی میں ہے۔ قرآن میں لفظ مسجد مختلف معانی کا حامل ہے۔
مثلاً قرآن کریم میں کبھی لفظ مساجد، بدن کی ان سات جگہوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو سجدہ کی حالت میں زمین پر رکھی جاتی ہیں۔ "وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَداً"[4]، "اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں لہذا اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا"۔
جب سے مسجد کی اسلام میں بنیاد رکھی گئی، تب سے مسجد میں آنے جانے کے لئے کچھ احکام اور آداب، قرآن اور احادیث میں بیان ہوئے۔ مسجد کی طہارت اور صفائی پر تاکید کی گئی ہے، نیز نمازی آدمی اور اس کی چیزیں اور اس کے حالات کے متعلق خاص فقہی احکام قرار دیئے گئے ہیں۔ مثلاً مسجد میں جنابت کی حالت سے داخل ہونا حرام قرار دیا گیا ہے، سفید اور پاکیزہ کپڑے مسجد میں حاضر ہونے کے لئے مستحب ہیں اور مسجد میں آنے کے لئے سیاہ اور میلے کپڑے پہننا مکروہ ہیں۔
اسلامی ثقافت میں قرآن کریم اور روایات میں مسجد کا خاص احترام اور مقام ہے۔ قرآن کریم کی نظر میں مسجد کو قائم کرنا ہر آدمی کا کام نہیں بلکہ اس کے لئے کچھ شرطیں ہیں، ارشاد الہی ہے: "إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّـهَ فَعَسَىٰ أُولَـٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ"(۵)، "اللہ کی مسجدوں کو صرف وہ لوگ آباد کرتے ہیں جن کا ایمان اللہ اور روز آخرت پر ہے اور جنہوں نے نماز قائم کی ہے زکات ادا کی ہے اور سوائے خدا کے کسی سے نہیں ڈرے یہی وہ لوگ ہیں جو عنقریب ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں گے"۔
حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو انسان مسجد میں آنے جانے کو جاری رکھتا ہے تو اسے آٹھ میں سے ایک فائدہ پہنچے گا: "مَنِ اختَلَفَ إلى المَسجِدِ أصابَ إحدَى الثَّماني: أخا مُستَفادا في اللّه ِ ، أو عِلما مُستَطرَفا ، أو آيَةً مُحكَمَةً ، أو رَحمَةً مُنتَظَرَةً ، أو كَلِمَةً تَرُدُّهُ عن رَدىً ، أو يَسمَعُ كَلِمَةً تَدُلُّهُ على هُدىً ، أو يَترُكُ ذَنبا خَشيَةً أو حَياءً"(۶)، "اللہ کی خاطر کسی بھائی کا مل جانا، یا کوئی نیا علم، یا کوئی محکم آیت، یا ایسی رحمت جس کا وہ منتظر تھا، یا ایسی بات جو اسے ہلاکت سے بچالے، یا ایسے جملہ کا سننا جو اسے ہدایت کی طرف راہنمائی کرے، یا کسی گناہ کو خوف یا حیا سے چھوڑ دے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں: "مَن مَشى إلى مَسجِدٍ يَطلُبُ فيهِ الجَماعَةَ كانَ لَهُ بكُلِّ خُطوَةٍ سَبعونَ ألفَ حَسَنةٍ، و يُرفَعُ لَهُ مِن الدَّرَجاتِ مِثلُ ذلكَ، و إن ماتَ و هُو على ذلكَ وكَّلَ اللّه ُ بهِ سَبعينَ ألفَ مَلَكٍ يَعُودُونَهُ في قَبرِهِ، و يُؤنِسُونَهُ في وَحدَتِهِ، و يَستَغفِرُونَ لَهُ حتّى يُبعَثَ"(۷)‘، "جو شخص نماز جماعت کے لئے کسی مسجد میں جائے، ہر قدم اٹھانے کے بدلے اس کے لئے ستر ہزار نیکیاں ہیں اور اسی مقدار میں اس کے درجات بلند ہوجائیں گے اور  اگر اس حالت میں مرجائے تو اللہ ستر ہزار فرشتوں کو مقرر کرے گا کہ اس کی قبر میں اس کی عیادت کے لئے جائیں اور اس کی تنہائی میں اس سے انس پائیں اور اس کے محشور ہونے تک اس کے لئے استغفار کریں۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جناب ابوذر غفاری سے فرمایا: "يا أبا ذَرٍّ، إنّ اللّه َ تعالى يُعطِيكَ ما دُمتَ جالِسا في المَسجِدِ بِكُلِّ نَفَسٍ تَنَفَّستَ دَرَجةً في الجَنَّةِ ، و تُصَلِّي علَيكَ الملائكةُ ، و تُكتَبُ لَكَ بِكُلِّ نَفَسٍ تَنَفَّستَ فيهِ عَشرُ حَسَناتٍ ، و تُمحى عنكَ عَشرُ سَيّئاتٍ"(۸)، "اے ابوذر! جب تک مسجد میں بیٹھے ہو یقیناً اللہ تعالی تمہارے ہر سانس لینے کے بدلے ایک درجہ تمہیں جنت میں دیتا ہے اور فرشتے تم پر درود بھیجتے ہیں اور مسجد میں تمہارے ہر سانس لینے کے بدلہ تمہارے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور تم سے دس گناہ مٹا دیے جاتے ہیں"۔
نتیجہ: قرآن و روایات کی روشنی میں مساجد کا خاص مقام ہے۔ اسلام میں کوئی جگہ مسجد کی عظمت اور بلندی کا ہم پلہ نہیں ہے، مسجد ساجد، ذاکر اور عارف لوگوں کا مرکز ہے۔ مسجد اسلامی تعلیمات کی اشاعت کی جگہ اور مومنین اور متقین کی تربیت و پرورش کی جگہ ہے۔ مسجد میں نماز جماعت کی خاص فضیلت ہے، لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ نماز جماعت مسجد میں پڑھیں، جہاں مسجدیں نہیں ہیں وہاں پر مسجدیں تعمیر کریں اور جہاں مسجد ہیں مگر آباد نہیں اور ان میں نماز قائم نہیں ہوتی، ان مساجد کو آباد کریں اور وہاں پر نماز قائم کریں تا کہ ہر روز کئی بار ہر شہر اور ہر گاوں میں کئی طرف سے، اللہ تعالی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل بیت (علیہم السلام) کا نام اور ذکر گونج اٹھے، اور اس طرح سے اسلام زندہ و سربلند رہے اور آواز حق کو بلند کرنے والے رحمت الہی سے اپنے دامن کو بھرلیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]ميزان الحكمه ، ج12، 45۔
[2] آثار اسلامی مکه و مدینه، ص201۔
[3] نهضت امام خميني؛ سيد حميد روحاني؛ ج1؛ ص456۔
[4] سورہ جن، آیت 18۔
[5]سورہ توبه، آیت 18۔
[6]امالی شیخ صدوق، 474/637۔
[7]بحار الأنوار، 1/336/76۔
[8] بحار الأنوار، 3/85/77۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
9 + 6 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 32