خلاصہ: اگر اسلام کے تاریخی منابع کو دیکھا جائے تو جگہ جگہ پر حضرت علی(علیہ السلام) کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے، انھیں فضیلتوں کو بیان کرنے والے تاریخی مقامات میں سے ایک مقام مسجد ردالشمس ہے جہاں پر رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے سورج کے پلٹنے کے لئے دعا کی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسجد فَضِیْخ جسے مسجد الشمس بھی کہا جاتا ہے، مسجد قبا کے مشرق میں تقریبا ایک کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے، یہ مسجد آجکل خراب ہوکر صرف اس کی چار دیواری باقی رہ گئی ہے[۱]۔
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر پہلی صدی ہجری میں ہوئی؛ منجملہ ایک روایت میں امام صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں: "پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تمام باقی ماندہ آثار میں رد و بدل کی گئی ہے صرف چند چیزوں کے علاوہ اور "مسجد فضیخ" کو منجملہ ان چیزوں میں شمار کیا جاتا ہے[۲]۔
مسجد کی لمبائی ۱۹ مٹر اور چوڑائی ۴ مٹر ہے لیکن مسجد کا صحن کچی مٹی سے بنا ہوا ہے، مسجد کی عمارت ۵ گنبدوں اور ایک محراب پر مشتمل ہے اس مسجد کی دیواریں کالے پتھر کی بنی ہوئی ہے اور اس کے اوپر سفید کام کیا گیا ہے[۳]۔
پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی رحلت کے بعد پہلی مرتبہ عمر بن عبد العزیز نے مسجد قبا کی مرمت کے ساتھ اس مسجد کی بھی مرمت کی، ساتویں صدی ہجری کے مشہور مدینہ شناس،"مطری" اس مسجد کے خراب ہونے کی خبر دیتا ہے لیکن اس کی باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے دور میں ابھی مسجد کا قابل توجہ حصہ باقی ہے، وہ لکھتا ہے: اس مسجد کے سولہ ستون تھے جو اب خراب ہو گئے ہیں اور اس مسجد کا منارہ بھی گر چکا ہے [۴]۔
آجکل اس مسجد کے صرف نشان باقی ہیں، اس مسجد کے مشرق میں واقع ایک اور مسجد جو در اصل "مسجد بنیقریظہ" ہے غلطی سے اسے بھی "مسجد فضیخ" کہا جاتا ہے[۵]۔
احادیث کے مطابق رد الشمس(سورج پلٹانے) کا واقعہ جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے معجزات اور امام علی(علیہ السلام) کے کرامات میں سے ہے اسی مسجد میں رونما ہوا ہے[۶]، رد الشمس کے واقعہ کو روایتوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جنگ بنی نضیر میں قلعہ بنی نضیر کے محاصرہ کے دوران ایک دن عصر کے وقت پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو امام علی(علیہ السلام) کے زانوں پر سر رکھ کر لیٹ گئے اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو نیند آگئی تھی سورج غروب ہونے کے نزدیک رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) بیدار ہوئے اور آپ متوجہ ہوئے کہ حضرت علی(علیہ السلام) نے ابھی تک نماز عصر نہیں پڑھی، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے دعا کی کہ سورج کو پلٹایا جائے تاکہ حضرت علی(علیہ السلام) عصر کی نماز پڑھ سکیں، جس حدیث میں اس واقعہ کو ذکر کیا گیا ہے اسے حدیث ردّ الشمس کہا جاتا ہے جسے شیعہ اور بعض اہل سنت راویوں نے نقل کیا ہے[۷]۔
بعض منابع میں اس مسجد کا نام "شمس" یعنی سورج لکھا گیا ہے اور اس کی علت یہ بیان کرتے ہیں کہ: مسجد بلندی پر واقع ہے اور سورج طلوع ہوتے وقت سب سے پہلے اسی مسجد پر سورج پڑتی ہے اس لئے اسے یہ نام دیا گیا ہے[۸]۔
احادیث کے مطابق پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس مسجد میں بہت زیادہ نماز پڑھا کرتے تھے، مدینہ کے تاریخی منابع میں مختلف صدیوں میں اس مسجد کا تذکرہ ملتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کی زیارت اور اسے دیکھنے آنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی [۹]۔
نتیجہ:
مسجد رد الشمس وہ مسجد ہے جو حضرت علی(علیہ السلام) کی فضیلت کی گواہی دیرہی ہے، خدا ہم سب کو حضرت علی(علیہ السلام) کی حقیقی فضیلت کو معرفت کے ساتھ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
...................................
حوالے:
[۱] محمد باقر نجفی، مدینہ شناسی، ج۱، ص۲۲۲، مشعر، تھران، ۱۳۸۶۔
[۲] محمد بن يعقوب كلينى، كافی، تهران، ج۴، ص۵۶۱، دار الكتب الإسلامية، ۱۴۰۷ق۔
[۳] مدینہ شناسی، ص۲۲۲.
[۴] گذشتہ حوالہ،ص۲۲۵۔
[۵] رسول جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۲۶۸. مشعر، تھران، ۱۳۸۲۔
[۶] مدینہ شناسی، ص۲۲۲۔
[۷] كافی، ص۵۶۲۔
[۸] آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص ۲۶۷۔
[۹] گذشتہ حوالہ، ص۲۶۶۔
Add new comment