خلاصہ: مسجد اقصی اسلام کی اہم مسجوں میں سے ایک مسجد ہے جس کے بارے میں خداوند عالم نے قرآن کی مخلتف آیات کی روشنی میں اس کی عظمت اور اہمیت کو بتایا ہے تاکہ ہم اس کی عظمت کو سمجھیں اور اس کا احترام کریں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایشیا کے مغرب اور مشرق وسطیٰ کے جنوب کی جانب فلسطین کا مرکز قدیمی تاریخی شہر "قدس" کا محل وقوع ہے جسے "بیت المقدس" یا "قدس شریف" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں اسکی قدامت ٤٥ صدیوں سے زیادہ بیان ہوئی ہے، یہ مقدس شہر اُن شہروں میں سے ایک ہے جو تمام انسانوں کے نزدیک مقدس ہیں، اکثر انبیاء اسی شہر میں مبعوث ہوئے اور اس شہر کے اردگرد پھیلی ہوئی زمین کے کسان آج بھی خود کو کسی نہ کسی نبی کی اولاد بتاتے ہیں، یہ شہر مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کیلئے یکساں متبرک ہے، مسلمانوں کا قبلہ اول، مسجد الحرام اور مسجدِ نبوی کے بعد تیسرا حرم ہے، سرور کائنات(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہجرت کے بعد بھی سترہ مہینوں تک اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے[۱]، معراج کے سفر میں بھی یہی شہر آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی پہلی منزل تھا، اِسی جگہ حضرت داؤد(علیہ السلام) کا مدفن اور حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) کی جائے ولادت ہے[۲]۔
اس مقالہ میں بعض آیات جو مسجد اقصی کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ان کو بیان کیا جارہا ہے تاکہ قرآن مسجد اقصی کی اہمیت کو کس طرح بتارہا ہے وہ ہمارے لئے واضح ہوجائے، قرآن مجید میں بعض آیات اشارہ کے طور پر مسجد اقصی کے بارے میں وارد ہوئی ہیں اور بعض آیات میں خود مسجد اقصی کے بارے میں بیان کیا جارہا ہے جن میں سے بعض آیات کو بیان کیا جارہا ہے:
۱۔ «سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِہٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِيَہٗ مِنْ اٰيٰتِنَااِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ[سورۂ اسراء، آیت:۱] پاک و پاکیزہ ہے وہ پروردگار جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک لے گیا جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایا ہے تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں بیشک وہ پروردگار سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے».
اس آیت میں مسجد اقصی کو خدا کی نشانیوں می سے ایک نشانی کے طور پر بیان کیا گیا ہے
۲۔ « وَنَجَّيْنٰہُ وَلُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْہَا لِلْعٰلَمِيْنَ[سورۂ انبیاء، آیت:۷۱] اور ابراہیم( علیہ السلام) اور لوط( علیہ السلام) کو نجات دلاکر اس سرزمین کی طرف لے آئے جس میں عالمین کے لئے برکت کا سامان موجود تھا ».
ابن عباس سے کتاب انس الجیل میں نقل کیا گیا ہے کہ اس آیت میں مبارک سرزمین سے مراد مسجد اقصی ہے کیونکہ یہاں پر بہت زیادہ میٹھے پانی کے چشمے موجود ہیں۔
۳۔ « وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِيْ بِاَمْرِہٖٓ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْہَا وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عٰلِمِيْن[سورۂ انبیاء، آیت:۷۱] اور سلیمان کے لئے تیز ہواؤں کو مَسخر کردیا جو ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھیں جس میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں اور ہم ہر شئ کے جاننے والے ہیں.»
تفسیر مجمع البیان میں اس آیت کے ذیل میں بیان کیا گیا ہے کہ مبارک سرزمین سے مراد بیت المقدس ہے۔
۴۔ « يٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِيْ كَتَبَ اللہُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِيْنَ[ سورۂ مائدہ، آیت: ۲۱] اور اے قوم اس ارض مقدس میں داخل ہوجاؤ جسے اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور میدان سے اُلٹے پاؤں نہ پلٹ جاؤ کہ اُلٹے خسارہ والوں میں سے ہوجاؤ گے».
شیخ طبرسی اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں مقدس زمین سے مراد بیت المقدس ہے۔
۵۔ « وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْہَا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاءِيْلَ بِمَا صَبَرُوْا وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہٗ وَمَا كَانُوْا يَعْرِشُوْنَا[سورۂ اعراف، آیت:۱۳۷] اور ہم نے مستضعفین کو شرق و غرب زمین کا وارث بنادیااور اس میں برکت عطا کردی اور اس طرح بنی اسرائیل پر اللہ کی بہترین بات تمام ہوگئی کہ انہوں نے صبر کیاتھا اور جو کچھ فرعون اور اس کی قوم والے بنارہے تھے ہم نے سب کو برباد کردیا اور ان کی اونچی اونچی عمارتوں کو مسمار کردیا».
ان آیات کی روشنی میں قرآن نے مسجد اقصی کی اہمیت کو واضح کردیا ہے اور یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ مسجد اقصی کا تقدس گزشتہ انبیاء کے زمانے سے ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي – بيروت، دوسری چاپ، ج۴، ص۱۰۵، ۱۴۰۳ق.
[۲] http://old.tvshia.com/urdu/index.php/articles/%20/496
Add new comment