خلاصہ: بلاء، خداوند متعال کی جانب سے ایک نعمت ہے جس کی وجہ سے جو لوگ ضلالت اور گمراہی میں زندگی گذار رہے ہیں سیدھے راستہ کے طرف پلٹ کر آجاتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان کي تخليق کا مقصد ہدايت اور تکامل ہے، اور ہدايت و تکامل اس وقت حاصل ہوتا ہے جس وقت لوگ اللہ کی نشانیوں کي معرفت حاصل کرینگے اور اللہ کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرینگے، کبھي لوگ گناہ اور معصيت کے نتيجہ ميں راہ حق سے منحرف ہو جاتے ہيں اور کبھی عيش و آرام اور اقتصادي اور مادي لذتوں سے بہرہ مند ہونے کی بناء پر اور کبھی ان کی پسدیدہ چیزیں آسانی سے فراھم ہونے کی بناء پر خدا اور معنويات کي طرف بہت کم توجہ ديتے ہيں، ايسے وقت ميں انساني اور الٰہي خصلتيں ان کے اندر دھيرے دھيرے کمزور ہونے لگتي ہيں اور آخر کار فراموشي کي نذر ہو جاتي ہيں، نتيجہ ميں ان کے اندر کفر و ضلالت اور سرکشي و گمراہي پيدا ہو جاتي ہے، جس کے بارے میں خداوند متعال قرآن مجيد میں اس طرح ارشاد فرمارہا ہے: « كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰى[سورۂ علق، آیت:۷،۶] بے شک انسان سرکشی کرتا ہے کہ اپنے کو بے نیاز خیال کرتا ہے»، جس وقت انسان اپنے کو بے نياز سمجھ ليتا ہے تو سرکشي کرنے لگتا ہے، اگر ايک معاشرہ اور امت کي اکثريت پر سرکش اور استکباري فکر حاکم ہو تو خداوند متعال کا لطف اور اس کي عنايت اس بات کا سبب بنتي ہے کہ کسي بھي طرح سے انسانوں کو ہوشيار کرے، ان کو خواب غفلت سے بيدار کرے اور راہ حق اور طرز بندگي کي طرف واپس لے آئے-
اس مقصد کے تحقق کے لئے کبھي کبھي خداوند متعال بلائيں نازل کرتا ہے اور دوسري طرف ان بلاؤں کے دور کرنے اور ان کے علاج کے لئے گناہوں سے توبہ واستغفار اور خدا کي طرف توجہ کا سبب بنتا ہے تاکہ نتيجہ ميں خلقت کا مقصد پورا ہوسکے اور يہي انسان کي اختياري ہدايت اور تکامل ہے۔
بعض بلاؤوں کا نزول غافل انسانوں کي توجہ اور بيداري کا سبب ہوتا ہے اس لئے کہ سخت حالات ميں انسان بہتر طور پر اپنی ناچاری اور خدا کی ضرورت کا احساس کرتا ہے اور عيش و آرام کي زندگي سے بہتر بلاؤ ں کي زندگي ميں وہ انبياء کي تعليمات کو سمجھتا اور قبول کرتا ہے جس کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہورہا ہے: « وَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَۃٍ مِّنْ نَّبِيٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَہْلَہَا بِالْبَاْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّہُمْ يَضَّرَّعُوْنَ[سورۂ اعراف، آیت:۹۴] اور ہم نے جب بھی کسی قریہ میں کوئی نبی بھیجا تو اہل قریہ کو نافرمانی پر سختی اور پریشانی میں ضرور مبتلا کیا کہ شاید وہ لوگ ہماری بارگاہ میں تضرع و زاری کریں»-
اس بنا پر امتوں کے بعض عذابوں اور ان کي سختيوں کا فلسفہ لوگوں کي بيداري اور راہ ہدايت کي طرف ان کا واپس آنا ہے، اگرچہ ممکن ہے کہ يہ سختياں، پريشانياں اور بلائيں بعض امتوں کو بيدار نہ کريں اور وہ لوگ اسي طرح ضلالت و گمراہي پر اڑے رہيں، کہ اس صورت ميں حجت ان پر تمام ہو جاتي ہے اور ایسے لوگوں کو چاہئے کہ ان بلاؤوں کے نزول کے منتظر رہيں جو کہ ان کي حيات اور زندگي کا خاتمہ کرديں گي جس کے بار ے میں خداوند متعال رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے خطاب کرتے ہوئے فرمارہا ہے: « ہم نے تم سے پہلے والی اُمتوں کی طرف بھی رسول بھیجے ہیں اس کے بعد انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑ گڑائیں، پھر ان سختیوں کے بعد انہوں نے کیوں فریاد نہیں کی بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہوگئے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لئے آراستہ کردیا ہے، پھر جب ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انہیں یاد دلائی گئی تھیں تو ہم نے امتحان کے طور پر ان کے لئے ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں سے خوشحال ہوگئے تو ہم نے اچانک انہیں اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ مایوس ہوکر رہ گئے»[۱]-
ہميں جاننا اور سمجھنا چاہئے کہ يہ اللہ کی سنت ہے جو کہ پہلے والي امتوں ميں جاري رہي ہے اور آخرالزمان کي امت بھي اس سے مستثنيٰ نہيں ہے-
نتیجہ:
صاحبان بصيرت اور ان لوگوں کے لئے جو اپني سعادت اور سرنوشت کي فکر رکھتے ہيں، بعض مشکلات و مصائب اور بلاؤں کا وجود، عبرت و ہدايت کا ذريعہ ہے، اور اس کے برعکس بعض لوگ ان بلاؤوں میں مبتلی ہونے کے باوجود خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور سیدھے راستہ کی طرف ان کے لئے آنا آسان نہیں ہے جس کے بارے میں خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرمارہاہے: « اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور ان کی تکلیف کو دور بھی کردیں تو بھی یہ اپنی سرکشی پر اڑے رہیں گے اور گمراہ ہی ہوتے جائیں گے، اور ہم نے انہیں عذاب کے ذریعہ پکڑا بھی مگر یہ نہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی گڑگڑاتے ہیں»[۲]-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] « لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰہُمْ بِالْبَاْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّہُمْ يَتَضَرَّعُوْنَ، فَلَوْلَآ اِذْ جَاءَہُمْ بَاْسُـنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَزَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ، فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَيْہِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ، حَتّٰٓي اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰہُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ہُمْ مُّبْلِسُوْنَ»[ سورۂ انعام، آیت : ۴۲ سے۴۴]-
[۲] «وَ لَو رَحِمنَاہُم وَ کَشَفْنَا مَابِہِم مِن ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغيَانِہِم يَعمَہُونَ* وَ لَقَد اءَخَذنَاہُم بِالعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوا لِرَبِّہِم وَ مَايَتَضَرَّعُونَ»[ سورۂ مومنون، آيت: ۷۵ اور ۷۶]-
Add new comment