چکیده:داڑھی اور موچھ رکھنے کا طریقہ وہی ہونا چاہیے جو رسول خدا اور ان کی آل نے بتایا ہے ۔
رسول خدا (ص) ارشاد فرماتے ہیں : رَبّي اَ مَرَني باعفاء لـِحيَتي وَ قَصِّ شارِبي ۔1
میرے پرور دگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں داڑھی کو رکھوں اور موچھوں کو چھوٹا کروں ۔
امام صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
أخْذُ الشّارِبِ مِنَ الْجُمُعَهِ إلَى الْجُمُعَهِ أمانٌ مِنَ الْجُذامِ 2
جمعہ کے دن داڑھی بنانا اور ناخن کاٹنا جذام کی بیماری سے بچاتا ہے ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : لا یُطَوِّلنَّ اَحدکم شاربَهُ، فانَّ الشِّیطانَ یتّخذهُ مخبَأََ یستَتِرُ بِهِ3
اپنی موچھوں کو بڑا نہ ہونے دو کیونکہ وہ شیطان کی جگہ ہے کہ جہاں شیطان چھپتا ہے ۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: مَنْ لَمْ يَأْخُذْ مِنْ شَارِبِهِ فَلَيْسَ مِنَّا 4
جس نے اپنی موچھیں نہیں بنائی وہ ہم میں سے نہیں
حُفُّوا الشَّوَارِبَ وَ أَعْفُوا اللِّحَى وَ لَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ 5
اپنی موچھیں اور داڑھی کو منظم رکھو اور خود کو یھودیوں جیسا نہ بناؤ۔
ان المجوس جَزُّوا لحَََاهُم و وَفَّرُوا شَواِربَهُم و انا نحن نَجُزُّ الشوارب و نعفی اللُّحَی و هی الفطرﺓ6
مجوسی اپنی داڑھی مونڈتے ہیں اور موچھیں بڑی رکھتے ہیں لیکن ہم مسلمان موچھیں چھوٹی رکھتے ہیں اور داڑھی بڑی رکھتے ہیں کیونکہ یہ عمل فطرت کے مطابق ہے ۔
إِذَا أَخَذَ الشَّارِبَ- یَقُولُ بِسْمِ اللَّهِ وَ بِاللَّهِ وَ عَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه وآله7
جب بھی موچھوں کو چھوٹا کرو تو کہو بِسْمِ اللَّهِ وَ بِاللَّهِ وَ عَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه وآله
حفّوا الشوارب واعفوا اللّحى ولاتتشبّهوا بالمجوس8
اپنی موچھیں اور داڑھی کو منظم رکھو اور خود کو مجوسیوں جیسا نہ بناؤ۔
آیۃ اللہ العظمی سید ابوالقاسم خوئی نے داڑھی کے حرام ہونے پر ایک مفصل بحث کی ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ شیعہ سنی علماء کے درمیان اجماع ہے کہ داڑھی مونڈنا حرام ہے ان وجوہات کی بنا پر :
۱۔ قول خداوندی ہے : فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ 9
پھر حکم دوں گا تو اللہ کی مقررہ خلقت کو تبدیل کردیں گے پس داڑھی کا مونڈنا تغیر خلقت ہے تو اسی وجہ سے حرام قرار دیا ہے۔
2۔ روایت میں آیا ہے کہ لمبی داڑھی رکھنا بھی منع ہے کیونکہ یہ یھود اور مجوس سے تشبیہ ہے10
۳۔ جعفریات کی معروف روایت کہ جس میں داڑھی مونڈنا منع کیا گیا ہے کہ جو بھی داڑھی مونڈے گا خدا وند متعال اس پر لعنت بھیجتا ہے ۔11
۴۔ روایت میں ہے کہ دشمنوں کے ساتھ دینی سلوک رکھنا جائز نہیں ہے اور داڑھی مونڈنا دینی سلوک کہلاتا ہے ۔
مفضل امام صادق علیہ السلام کا صحابی ہے امام علیہ السلام سے سوال کرتا ہے مولا آخر داڑھی رکھنے کی وجہ کیا ہے ؟
امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: چہرے پر داڑھی کا ہونا مرد ہونے کی علامت ہے ۔۱۲
رسول خدا ارشاد فرماتے ہیں کہ داڑھی کا مونڈنا ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے انسان اپنی روح کو شکنجہ مار رہا ہوتا ہے کہ جو ظاہری طور پر اسے سمجھ نہیں آتی ۔13
رسول خدا سے جب قوم لوط کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ان کے تباہ ہونے کی وجہ لواط اور داڑھی کا مونڈنا تھا ۔14
حضرت موسی کے زمانے میں اگر کسی کو ذلیل اور حقیر کرنا ہوتا تھا تو اس کی داڑھی مونڈ دی جاتی تھی کیونکہ شریعت حضرت موسی میں داڑھی مونڈنے کو حقیر اور ذلیل کہا گیا ہے ۔15
امام علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ایک قوم تھی جو داڑھی مونڈتی تھی اور موچھیں رکھتی تھی اور یہی وجہ بنی ان کی تباہی کا ۔16
امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : خدا وند متعال نے ایک پیغمبر کو وحی کی کہ مومنوں سے کہ دو اپنے آپ (لباس ،ظاہری حالت ،کھانے)کو دشمنوں کی طرح نہ بناؤ کیونکہ اگر ایسا کرو گے تو تمہیں بھی دشمن خدا سے ساتھ شمار کیا جائے گا ۔17
مذکورہ مطالب سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ :
۱۔ داڑھی کا رکھنا موچھ کا چھوٹا رکھا سنت رسول خدا (ص) ہے ۔
۲۔۔چہرے پر داڑھی کا ہونا مرد ہونے کی علامت ہے۔
۳۔ مؤمن اگر داڑھی نہیں رکھتا اور موچھ رکھتا ہے تو گویا وہ ایسا ہے کہ جیسے اسلام کا دشمن۔
۴۔قوم لوط کی تباھی کے اسباب میں سے ایک سبب داڑھی کا نہ رکھنا تھا۔
۵۔داڑھی کو مونڈنے سے انسان کی روح کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔
۶۔موچھ بڑی رکھنا اور داڑھی منڈوانا یھودیوں اور مجوسیوں کی علامت ہے۔
منابع
۱۔ بحارالانوار، ج 76، روایت 14، ب 13
2. من لایَحضره الفقیه: ج 2 ص 51 ح 13.
3. بحارالانوار، ج 76، روایت 14، ب 13
4. بحارالانوار، ج 76، روایت 14، ب 13
5. شيخ حر عاملي، وسائل الشيعه، موسسه آل البيت، قم، 1409ق، ج2، ص116.
6. وسائل الشیعه ج2 ص 116 ح1659 مسائل جدید ص76 بنقل از سفینه البحار 2\ 50
7. بحارالانوار، ج 76، روایت 14، ب 13
8. ، بحارالانوار، ج76، ص111، ح10، ب1
9. نساء119
10. (وسایل الشیعہ ، ج۱،باب۶۷،ص۸۰)
11. المستدرک،ج۱،ص۵۹
12۔بحار . ج 3 ، ص 62 و 75
13۔ مستدرک الوسائل : ج 1 ص 406 – سفينة البحار : ج 2 ص 508
14. ( مستدرک الوسائل ، ج 1 ، ص 407
15. اولين و آخرين پيامبر (ص) ، ج 15 ، ص 243 ، 263
16. وسائل الشیعه , ج 1, باب 56, از همان باب , ص 80 و الوافی , ج 2, ص 33
17. بهشت جوانان ، ص 477 .وسائل : ج 3 ص 279 و ج 11 ، ص ۱۱۱
Add new comment