حجاب قرآن اور امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده: حجاب یعنی نامحرم سے پورے جسم کا چھپانا ، وہ حجاب جس سے جسم نمایاں ہو حجاب نہیں کہلائے گا ۔

حجاب قرآن اور امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں

حجاب قرآن میں  :
وَ قُلْ لِلْمُؤْمِناتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَ لا یُبْدینَ زینَتَهُنَّ إِلاَّ ما ظَهَرَ مِنْها وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى‏ جُیُوبِهِنَّ وَ لا یُبْدینَ زینَتَهُنَّ إِلاَّ لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبائِهِنَّ أَوْ آباءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنائِهِنَّ أَوْ أَبْناءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوانِهِنَّ أَوْ بَنی‏ إِخْوانِهِنَّ أَوْ بَنی‏ أَخَواتِهِنَّ أَوْ نِسائِهِنَّ أَوْ ما مَلَكَتْ أَیْمانُهُنَّ أَوِ التَّابِعینَ غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذینَ لَمْ یَظْهَرُوا عَلى‏ عَوْراتِ النِّساءِ وَ لا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ ما یُخْفینَ مِنْ زینَتِهِنَّ وَ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمیعاً أَیُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۱
 اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے اور اپنے دوپٹہ کو اپنے گریبان پر رکھیں اور اپنی زینت کو اپنے باپ دادا.شوہر. شوہر کے باپ دادا .اپنی اولاد ,اور اپنے شوہر کی اولاد اپنے بھائی اور بھائیوں کی اولاد اور بہنوں کی اولاد اور اپنی عورتوں اور اپنے غلام اور کنیزوں اور ایسے تابع افراد جن میں عورت کی طرف سے کوئی خواہش نہیں رہ گئی ہے اور وہ بچےّ جو عورتوں کے پردہ کی بات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ہیں ان سب کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ کریں اور خبردار اپنے پاؤں پٹک کر نہ چلیں کہ جس زینت کو چھپائے ہوئے ہیں اس کا اظہار ہوجائے اور صاحبانِ ایمان تم سب اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتے رہو کہ شاید اسی طرح تمہیں فلاح اور نجات حاصل ہوجائے۔

یا أَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لازْواجِكَ وَ بَناتِكَ وَ نِساءِ الْمُؤْمِنینَ یُدْنینَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلاَبِیبِهِنَّ ذلِكَ أَدْنى‏ أَنْ یُعْرَفْنَ فَلا یُؤْذَیْنَ وَ كانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحیماً ۲
اے پیغمبر آپ اپنی بیویوں, بیٹیوں, اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادر کو اپنے اوپر لٹکائے رہا کریں کہ یہ طریقہ ان کی شناخت یا شرافت سے قریب تر ہے اور اس طرح ان کو اذیت نہ دی جائے گی اور خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔

امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے     اپنی وصیت میں  امام حسن علیہ السلام کو یوں فرمایا:

وَاكْفُفْ عَلَيْهِنَّ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ بِحِجَابِكَ إيَّاهُنَّ؛ فَإنَّ شِدَّةَ الْحِجَابِ أَبْقَي‌ عَلَيْهِنَّ. وَ لَيْسَ خُرُوجُهُنَّ بِأَشَدَّ مِنْ إدْخَالِكَ مَنْ لَا يُوثَقُ بِهِ عَلَيْهِنَّ؛ وَ إنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَا يَعْرِفْنَ غَيْرَكَ فَافْعَلْ.۳
تاکہ  خواتین  کی نگاہیں   نامحرموں   پر نہ پڑیں  انہیں پردہ میں محفوظ رکھو ، کیونکہ جتنا  زیادہ   پردہ میں رہیں گی تمھارے  اور ان کے لیے بہتر ہے  ، ان کے باہر جانے سے بدتر یہ ہے کہ غیر متمئن افراد کو گھر میں لاؤ،اور اگر تم میں اتنی طاقت ہے کہ تمھارے علاوہ اسے کوئی نہ پہچانے تو یہ کام کرو۔

بحرانی کہتے ہیں امام نے  خواتین کے پردے کے واجب ہونے کے بارے میں آگا ہ کیا ہے کیونکہ یہ ان کی حفاظت کا سبب  ہے یعنی عورت کا  پردہ نہ کرنا اور اپنی آرائش کو دکھانا اسے محفوظ نہیں رکھتا ۔۴

صاحب شرح الوصیہ  نے اشارہ کیا ہے کہ عورت کی حفاظت پردہ کے ذریعہ ہوتی ہیں یہاں  تک   انہوں نے کہا ہے کہ پردہ   عورت کو بری عادتوں سے روکتا ہے  ، اور  بے پردہ عورت فساد کا باعث بنتی  ہے اور اگر عورت گھر کے باہر نکل جائے  تو نقصان پہنچاتی  ہے ۔۵

امیر المؤمنین علی علیہ السلام  نے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو یوں فرمایا : اے بیٹا خواتین کے حجاب کے لیے سختی کرو ، کیونکہ حجاب کی پابندی خواتین کو سالم اور پاکیزہ رکھتی ہے ۔۶

موٹا لباس پہننا تم پر واجب ہے کیونکہ باریک  اورنازک لباس بدن کی نمائش کرتا ہے اور یہ کرنے سے تمھارا دین بھی نازک اور ضعیف ہو جائےگا ۔

اور فرمایا: جو شوہر اپنی بیوی کی اطاعت کرے  خدا وند اسے الٹے منہ  جہنم میں پھینکے گا ۔
ایک شخص نے سوال کیا مولا یہ جو اطاعت آپ نے فرمائی ہے اس سے کیا مراد ہے ؟

امام نے جواب دیا:بیوی جب شوہر سے کہےکہ اسے  نازک اور باریک لباس کے ساتھ باہر جانے اور محافل میں جانے کی اجازت دے  اور شوہر اسے اجازت دے دے تو اس جیسے کو خدا الٹے منہ جہنم میں پھینکے گا۔

امام  فرماتے ہیں کہ پیغمبر اسلا م نے منع کیا ہے اس عورت کو کہ جو شوہر کے علاوہ    کسی اور کےلیے آرائش کرے کیونکہ اگر کوئی ایسا کرے تو خدا اسے جہنم کی آگ میں جلائے گا۔
امام علیہ السلام کی فرمایشات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: آخری زمانہ کہ جو بد ترین زمانہ ہے کیونکہ اس میں خواتین بے حجاب اور ننگی باہر نکلیں گی یا آئش کے ساتھ باہر آئیں گی وہ اپنے اس عمل سے دین سے خارج ہونگی ،  فتنہ اورشھوت کی طرف بڑھیں گی حرام کو حلال سمجھیں گی ان کا نتیجہ جہنم اور ہمیشہ کا عذاب ہے ۔

امام علیہ السلام  کی فرمایشات میں سے چھ مطلب سمجھے جاتے ہیں :
۱۔ ایسا زمانہ جس میں حجاب اور پاکدامنی نہ رہے بد ترین زمانہ ہے ۔
۲۔جو خواتین آرائش کے ساتھ گھر سے نکلیں وہ دین سے خارج ہو جاتی ہیں ۔
۳۔ایسی خواتین فتنہ برپا کرتی ہیں  اور گناہوں کا موجب بنتی ہیں ۔
۴۔ان خواتین پر شھوت حاکم ہوتی ہے نہ عقل و منطق۔
۵۔ یہ وہ خواتین ہیں جنہوں نے خدا کے حرام کئے ہوئے کو حلال قرار دیا ہے خدا کے حکم کو پاؤں  کے نیچے روندا ہے ۔
۶۔نتیجہ : بے پردہ خواتین ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہیں گی ۔  

منابع
1۔نور،آیہ۳۱
2۔احزاب،۵۹
3۔ نهج‌ البلاغة‌ ج‌ 2، باب‌ الكتب‌، رسالۀ 31: نهج‌ البلاغة‌، طبع‌ مصر با تعليقۀ شيخ‌ محمّد عبده‌، ج‌ 2، ص‌ 56.
4۔ بحرانی،ج۵،ص۶۵
5۔ موسوی،ص۲۲۱
6۔ كلمات قصار، شماره ۶۱

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 38