چکیده: اس مقالہ میں علم کی عظمت کو قرآن و احادیث کی روشنی میں بیان کیا گیا نیز علم کی ضرورت اس دور میں کس قدر ضروری ہے اسکی طرف قارئین کی توجہ مبذول کراتے ہوئے صاحبان علم کی عظمت کو بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں ذکر کیاگیا ہے
علم کے ذریعے آدمی ایمان و یقین کی دنیا آباد کرتا ہے، بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، بروں کو اچھا بناتا ہے، دشمن کو دوست بناتا ہے، بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن و امان کی فضا پیدا کرتا ہے۔ علم کی فضیلت و عظمت، ترغیب و تاکید مذہب اسلام میں جس بلیغ و دل آویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی، تعلیم و تربیت، درس وتدریس تو گویا اس دین برحق کا جزو لاینفک ہو۔
کسی بھی ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار تعلیم پرہی ہوتا ہے،جس ملک و قوم میں تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے وہ ہمیشہ زندگی میں لوگوں پر اور ان کے دلوں پہ راج کیا کرتے ہیں۔اسلام میں بھی علم کو بہت اہمیت دی گئی ہے،کیونکہ علم کے کمالات میں سے ایک کمال یہ ہے کہ انسان کو جہالت اور گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر علم و آگاہی کی روشنی میں لاتا ہے اور بنی آدم کو شعور و فہم بخشتا ہے، اور انسان کو جب یہ تمیز ہو جاتی ہے تو دیوانہ وار کامیابیوں کی طرف لپکتا ہے۔
اسلام میں حصول علم کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے ۔ خداوندمتعال نے قرآن کریم میں سب سے پہلے پڑھنے ،علم اور کتابت سے اپنے کلام کا آغاز کیا ہے ۔ کیونکہ علم انسان کو سعادت وتکامل کاراستہ بتاتا ہے اور اسے قوی وتوانا بنادیتا ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل کو اپنی خواہشات کے مطابق بہتر بناسکے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ علم حاصل کی ترغیب دلاتے تھے ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ میں آیا ہے کہ آپ جنگ بدر کے بعد ہر اس اسیرکو جو مدینہ کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھاتا تھا آزاد کر دیتے تھے ۔اس عمل سے اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں تعلیم کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔آپ تمام علوم کو اہمیت دیتے تھے ، چنانچہ آپ نے اپنے بعض صحابیوں کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا ۔ معروف حدیث سے بھی جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے ، اسلام میں تعلیم کی اہمیت کا پتہ چلتاہے ، حصول علم کے بارے میں آپ کی ترغیب اور تاکید سبب بنی کہ مسلمانوں نے بڑی سرعت وہمت کے ساتھ علم حاصل کیا اور جہاں بھی انھیں علمی آثار ملتے تھے اس کا ترجمہ کرڈالا ۔اس طریقہ سے یونانی ، ایرانی ، رومی ،مصری ،ہندی اور بہت سی دوسری تہذیبوں کے درمیان رابطے کے علاوہ تاريخ انسانیت کے عظیم تہذيب وتمدن کو اسلامی تہذیب وتمدن کے نام سے خلق کرلیا ۔
علم اور اہل علم کی عظمت قرآن کی نگاہ میں:
قرآن کے تقریباً اٹھتر ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو پروردگار عالم نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل فرمایا وہ ’’اِقرَاء’’ ہے، یعنی پڑھیئے، اور قرآن پاک کی چھ ہزار آیتوں میں سب سے پہلے جو پانچ آیتیں نازل فرمائی گئیں ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، ارشاد ہے:
اس خدا کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا ہے، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے، پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے، اور انسان کو وہ سب کچھ بتادیا ہے جو اسے نہیں معلوم تھا۔[1]گویا وحی الٰہی کے آغاز ہی میں جس چیز کی طرف سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے ذریعے نوعِ بشر کو توجہ دلائی گئی،وہ لکھنا پڑھنا اور تعلیم و تربیت کے جواہر و زیور سے انسانی زندگی کو آراستہ کرنا تھا۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کو جب نبوت کے منصب عظیم سے نوازا گیا،اس وقت جزیرة العرب کی کیا حالت تھی؟ قتل و غارت گری، چوری، ڈکیتی،قتل اولاد، زنا،بت پرستی کون سی ایسی برائی تھی جو ان میں پائی نہ جاتی ہو۔ بعض وقت بڑے فخریہ انداز میں اسے انجام دیا جاتا تھا۔ اللہ کے رسول نے ان کی تعلیم و تربیت اس انداز سے کی اور زندگی گزارنے کے ایسے اصول بتائے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی حالت یکسر بدل گئی اور تہذیبی قدروں سے آشنا ہو گئے۔ جہاں اور جدھر دیکھیے لوگ تعلیم و تعلم سے جڑ گئے اور قرآن و حدیث کی افہام و تفہیم میں مشغول ہو گئے۔
شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلاَّ هُوَ وَ الْمَلائِكَةُ وَ أُولُوا الْعِلْم [2] ’’اللہ ‘ فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے اپنے ساتھ فرشتوں اور پھر اہل علم کاذکرفرمایا۔امام قرطبی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں علم کی فضیلت اور علماء کی عظمت کا ذکرہے ۔ اگر علماء سے زیادہ کوئی معزز ہوتا تواس کانام بھی فرشتوں کے ساتھ لیا جاتا۔ اسی طرح سورہ طٰہ میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کو حکم دیا ۔
وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْماً[3] کہ اپنے رب سے علم میں اضافہ کی دعا کرو۔گویاعلم اتنی اہمیت والی چیز ہے کہ جس میں اضافہ کیلئے مانگنے کا نبی کریم جیسی ہستی کو حکم دیاجا رہاہے ۔اگر اس سے زیادہ اہمیت والی کوئی چیز ہوتی تو اس کے مانگنے کا حکم بھی دیا جاتا۔
سورہ فاطر میں فرمایا: إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ إِنَّ اللَّهَ عَزيزٌ غَفُورٌ [4] اہل علم نے کہا یہ آیت علماء کی شان بیان کرتی ہے اور اس امتیاز کو حاصل کرنے کیلئے اللہ سے تقوی اور خشیت ضروری ہے۔ یاد رکھو کہ علم محض جان لینے کانام نہیں، خشیت و تقویٰ کا نام ہے۔ عالم وہ ہے جو رب سے تنہائی میں ڈرے اور اس میں رغبت رکھے اور اس کی ناراضگی سے بچے ۔
اللہ تم میں سے ان لوگوں کے درجے بلند کر دے گا جو ایمان لائے، اور جنھوں نے علم حاصل کیا[5]۔
دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:”(اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم) کہہ دیجیے کیا علم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) برابر ہوسکتے ہیں۔نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔[6]
اسکے علاوہ سینکڑوں احادیث ہیں جو اہمیت و حصول علم پر دلالت کرتی ہیں جس میں کچھ قارئین کی خدمت میں اختصار کے ساتھ پیش کی جارہی ہیں۔
معلم انسانیت پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)ارشاد فرماتے ہیں : مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ طَالِبُ دُنْيَا وَ طَالِبُ عِلْم[7]دو بھوکے ایسے ہوتے ہیں جو کبھی سیر نہیں ہوتے ۱۔علم کا بھوکا (طالب علم ) ۲۔ مال کا بھوکا (طالب دنیا)
آپ (ص)ارشاد فرماتے ہیں کہ : مثل الّذی یتعلّم العلم فی صغره کالنّقش على الحجر و مثل الّذی یتعلّم العلم فی کبره کالّذی یکتب على الماء[8]؛ بچپن میں علم حاصل کرنا ایسے ہے جیسے پتھر پر لکیر(کہ جو کبھی ذہن سے نہیں مٹتا) اور بڑکپن میں علم حاصل کرنا ایسے ہے جیسے پانی پر لکھنا (کہ جلدی دماغ میں نہیں بیٹھتا)
آپ (ص)ایک دوسرے مقام پر علم اور طالب علم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : ما من خارج خرج من بیته فی طلب العلم إلّا وضعت له الملائکه أجنحتها رضا بما یصنع حتّى یرجع؛[9]کوئی طالب علم بھی طالب علم اپنے گھر سے حصول علم کی غرض سے اپنے گھر سے نکلتا ہے تو فرشتے اپنے پروں کو اسکے قدموں میں بچھا دیتے ہیں یہاں تک وہ اپنے گھر واپس پلٹ جائے ۔
اسکے علاوہ اور بھی آیات و روایات ہیں جو اہمیت و حصول علم پر دلالت کرتی ہیں اور ساتھ ساتھ صاحبان علم کی ستائش و تعریف بھی کرتی ہیں مگر مقالہ کی تنگی کی بنا پر اسے یہاں ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن تمام آیات و روایات مربوطہ کا خلاصہ کلام اور نتیجہ یہی ہے کہ خداوند عالم اور اس کی طرف سے بھیجے گئے ہر نبی اور امام نے تمام انسانوں کی توجہ حصول علم کی طرف مبذول کرواتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی دعوت دی ہے۔
مگر انتہائی افسوس سے خونِ دل میں قلم ڈبو کر لکھنا پڑ رہا ہے کہ آج ترقی کے اس دور میں ہماری پیچیدگی کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے سماج و معاشرہ میں تعلیم سے غفلت برتی جا رہی ہے۔چاہے وہ قومی سطح پر ہو یا سرکاری سطح پر،اس جدید دور میں اپنے سماج کے پیچیدہ نظامِ تعلیم کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
..........................................................................................................
[1]سورة العلق آیت 1،5
[2] آل عمران 18
[3] طہ ۱۱۴
[4] فاطر 28
[5]سورة المجادلہ آیت 11
[6]سورةالزمر آیت 9
[7] الکافی ج۱، ص۴۶
[8]منيةالمريد 225
[9]نھج الفصاحہ صفحہ ۷۰۵،حدیث ۲۶۶۹۔
Add new comment