چکیده
اگر کسی کو دشمن کا ڈر اور خوف ہو تو اُسے اپنے دشمن سے بچاؤ اور اسکے حملات سے محفوظ رہنے اور اسکے ساتھ موثر مقابلہ کیلئے مندرجہ ذیل مراحل طے کرنا ضروری ہیں:
١: دشمن کے وجود سے باخبر ہونا۔
٢: دشمن کے ہتھیاروں اور اسکے حملہ کرنے کے انداز سے باخبر ہونا۔
٣: دشمن کے حملات کے توڑ اور موثر جواب دینے کے طریقہ سے واقف ہونا۔
٤: دشمن سے متعلق اپنی معلومات کو اہمیت دینا اور انکے مطابق عمل کرنا۔
قرآن میں شیطانی حملوں سے بچنے کے طریقے
ہم سب جانتے ہیں کہ انسان کے دشمنوں میں سے ایک اہم ترین دشمن شیطان ہے جس کی دشمنی حضرت آدم کی خلقت کے وقت سے شروع ہوئی اور جب تک انسان کے دم میں دم ہے اُسوقت تک شیطان کی انسان کے ساتھ دشمنی باقی رہے گی۔
انسان اور انسانیت کا یہ دشمن حضرت آدم کے سجدہ سے متعلق اللہ تعالی کے حکم سے نافرمانی کی بنا پراللہ تعالی کی بارگاہ سے دھدکار دیا گیا ، اور اللہ کی طرف سے اسکی عبادتوں کی جزا کے بدلے میں اُسے ''یوم معلوم'' تک اس دنیا میں زندہ رہنے کی مہلت دے دی گئی۔
ذیل میں ہم مذکورہ بالا شرائط سے متعلق قرآن مجید کی آیات کی نشاندہی کرتے ہیں:
١:پہلا مرحلہ (شیطان کے وجود سے آگاہی)
اللہ تعالی نے قرآن مجید کی کئی آیات میں شیطان کو انسان کے دشمن کے عنوان سے متعارف کروایا ہے، لہذا ارشاد فرمایا:
وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوًّا مُبِينًا ''اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ صرف اچھی باتیں کیا کریں ورنہ شیطان یقینا ان کے درمیان فساد پیدا کرنا چاہے گا کہ شیطان انسان کاکھلا ہوا دشمن ہے ''(سورہ اسراء:آیت ٥٣)
٢: دوسرا مرحلہ (شیطان کے ہتھکنڈوں اور اسکے حملہ کرنے کے انداز سے آگاہی)
الف) فقر ا ور تنگدستی سے ڈرانا: اللہ تعالی نے فقر اور تنگدستی کے خیال کو شیطان کے حربہ کے طور پر بیان کرتے ہوئے فرمایا: الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلًا وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ''شیطان تم سے فقیری کا وعدہ کرتا ہے اور تمہیں برائیوں کا حکم دیتا ہے اور خدا مغفرت اور فضل و احسان کا وعدہ کرتا ہے . خدا صاحبِ وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی '' (سورہ بقرہ: آیت٢٦٨)۔
اسی آیت کے دوسرے حصہ میں اللہ تعالی نے انفاق کو انسان کی مغفرت اور اُس پر اللہ تعالی کے فضل وکرم کا سبب قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلًا وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ''اور خدا مغفرت اور فضل و احسان کا وعدہ کرتا ہے ، خدا صاحبِ وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی '' ؛ اس آیت میں انسان پر واضح کیا گیا کہ انفاق کے بارے میں دو نظریہ ہیں، ایک باطل اور شیطانی نظریہ ہے جبکہ دوسرا برحق اور رحمانی نظریہ ہے؛ باطل اور شیطانی نظریہ یہ ہے کہ انفاق انسان کے فقر اور تنگدستی کا سبب بنتا ہے جبکہ برحق اور رحمانی نظریہ یہ ہے کہ انفاق اللہ تعالی کی مغفرت اور اسکے فضل وکرم کا سبب ہے۔
ب) وعدہ دینا اور امیدیں دلانا: اللہ تعالی نے شیطان کو اپنا ولی اور سرپرست بنانے والوں کے بارے میں فرمایا: (وَمَنْ یَتَّخِذْ الشَّیْطَانَ وَلِیًّا مِنْ دُونِ اﷲِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِینًا) ''اور جو خد اکو چھوڑ کر شیطان کو اپنا ولی اور سرپرست بنائے گا وہ کھلے ہوئے خسارہ میں رہے گا '' (سورہ نسائ: آیت١١٩)
پھر بعد والی آیت میں انسانوں کے انحراف کیلئے شیطان کے ایک حربہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:( یَعِدُہُمْ وَیُمَنِّیہِمْ وَمَا یَعِدُہُمْ الشَّیْطَانُ إِلاَّ غُرُورًا) ''شیطان ان سے وعدہ کرتا ہے اور انہیں امیدیں دلاتا ہے اور وہ جو بھی وعدہ کرتاہے وہ دھوکہ کے سوا کچھ نہیں ہے''(سورہ نسائ: آیت١٢٠)
ج):انسان کے اعمال کو اسکے سامنے آراستہ کرنا:انسان کے ساتھ جنگ میں شیطان کا ایک اور اہم ہتھیار اور حربہ ''انسان کی نظر میں اسکے اعمال کو آراستہ کرنا'' ہے، یعنی شیطان انسان کو برائیوں اور گناہوں کی طرف راغب کرنے کیلئے کوشش کرتا ہے کہ اُس کے نظر میں اسکے برے عمل کو بھی اچھا بنا کر پیش کرے تا کہ انسان اُس برے کام میں دلچسپی پیدا کر لے۔
شیطان اپنے اس حربہ کو کامیاب بنانے کیلئے شہوت اور ھوس کو ابھارنے اور اندرونی عواطف کو ہیجان میں لانے کا ذریعہ استعمال کرتا ہے، شہوت وھوس کو تحت الشعاع قرار دینے کے ذریعہ کوشش کرتا ہے کہ وہ برا کام انسان کی نظر میں عاقلانہ، منطقی اور اچھا کام شمار ہو، اور انسان کا دل اسکے جھوٹ پر مبنی ظاہر میں اس طرح کھو جائے کہ وہ اُس کام کے برے نتائج وآثار کو محسوس ہی نہ کر پائے(بااستفادہ از المیزان وتفسیر نمونہ)
اللہ تعالی نے شیطان کے اس حربہ اور ہتھیار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:(تَاﷲِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَی أُمَمٍ مِنْ قَبْلِکَ فَزَیَّنَ لَہُمْ الشَّیْطَانُ أَعْمَالَہُمْ فَہُوَ وَلِیُّہُمْ الْیَوْمَ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ) ''اللہ کی اپنی قسم کہ ہم نے تم سے پہلے مختلف قوموں کی طرف رسول بھیجے تو شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لئے آراستہ کردیا اور وہی آج بھی ان کا سرپرست ہے اور ان کے لئے بہت بڑا دردناک عذاب ہے ''(سورہ نحل: آیت٦٣)
٣): تیسرا مرحلہ (شیطان کے حملات کے توڑ اور موثر جواب دینے کے طریقہ سے آگاہی)
قرآن مجید کے مطابق شیطان کے حملہ اور وسوسہ سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان میں دو صفات موجود ہوں:
الف) جب انسان شیطانی وسواس سے دچار ہو تو اُسے اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ اللہ تعالی کے حکم کے علاوہ شیطان بھی انسان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:(... وَلَیْسَ بِضَارِّہِمْ شَیْئًا إِلاَّ بِإِذْنِ اﷲِ وَعَلَی اﷲِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُؤْمِنُونَ) ''... اور وہ صاحبانِ ایمان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے جب تک خدا اجازت نہ د ے دے اور صاحبانِ ایمان کا بھروسہ صرف اللہ پر ہوتا ہے ''(سورہ مجادلہ: آیت ١٠)
لہذا شیطانی حملہ محسوس کرتے ہی انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کو یاد کرتے ہوئے شیطان کا مقابلہ کرنے کیلئے اُسی پر بھروسہ کرے ۔
ب) شیطانی حملات کے مقابلے میں انسان کو چاہیے کہ اللہ کی یادکے ساتھ ساتھ اُس کی پناہ حاصل کرے کیونکہ اللہ پر ایمان رکھنے والوں کی بہترین پناہ اُسی کی ذات ہے:( وَإِمَّا یَنزَغَنَّکَ مِنْ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاﷲِ إِنَّہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ) ''اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی غلط خیال پیدا کیا جائے تو خدا کی پناہ مانگیں کہ وہ ہر شے کا سننے والا اور جاننے والا ہے ''(سورہ اعراف: آیت٢٠٠)
اور پھر انسان کو خدا کی قدرت پر بھروسہ اور اُس کی ذات پر توکل کرتے ہوئے شیطان کے مقابلے اٹھ کھڑے ہونا چاہیے، کیونکہ جو شخص اللہ تعالی پر ایمان اور اُس کی ذات پر توکل کے ساتھ شیطان کے مقابلہ میں آئے تو شیطان اُس پر تسلط حاصل نہیں کر سکے گا: ( إِنَّہُ لَیْسَ لَہُ سُلْطَانٌ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ) ''شیطان ہرگز ان لوگوں پر غلبہ نہیں پاسکتا جو صاحبان ہایمان ہیں اور جن کا اللہ پر توکل اور اعتماد ہے ''(سورہ نحل: آیت٩٩)۔
٤): چوتھا مرحلہ (شیطان سے متعلق اپنی معلومات کو اہمیت دینا اور انکے مطابق عمل کرنا)
دشمن کے وجود سے آگاہی، اسکے ہتھکنڈوں اور حربوں سے متعلق معلومات اور اپنے دفاع کے طریقہ سے آگاہی کے بعد چوتھا اور آخری مرحلہ شروع ہوتا ہے یعنی شیطان سے متعلق اپنی معلومات کو اہمیت دینا اور انکے مطابق عمل کرنا۔
Add new comment