وہابی
وہابیت ایک ایسا لفظ ہے کہ جسے وہابی بزرگوں کے ذریعہ استعمال میں لایا گیا، جیسے عبد العزیز بن باز، نے اس کا استعمال کرتے ہوئے اسے ایک بہترین لقب مانا ہے؛ تاہم، موجودہ دور کے وہابی افراد اپنے لیے اس لٖفظ کے استعمال سے ناخوش نظر آتے ہیں۔
ام المؤمنین خدیجة الکبریٰ (س) تاریخ اسلام کی وہ عظیم خاتون ہیں کہ جنکے گھر سے اسلام کا آغاز ہوا اور جہاں وحی الہٰی کا مسلسل نزول ہوتا رہا اور وہابیوں نے اسی گھر کو بیت الخلاء میں تبدیل کردیا جو انکی اسلام دشمنی کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
خدا جسم و جسمانیت سے پاک و پاکیزہ ہے یہ تو سبھی جانتے ہیں لیکن آئیے وہابیت کے خدا سے ملیئے۔
وہابیوں نے قبرستان بقیع پر کئی حملے کیے گئے مگر مکمل طور پر 8/ شوال 1344ھ میں سعودی جب مدینہ پر آخری بار قابض ہوئے قبرستان کو تباہ و منہدم کر کے تمام قیمتی سامان غارت کر کے چوری کر کے لے گئے؛وہابیوں کے اس اقدام نے دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے اور جب دنیا بھر میں ان کے اس گھناؤنے عمل کے خلاف اعتراضات ہوئے اور لوگوں نے اپنے غصے اور آل سعود سے نفرت کا اظہار کیا تو وہ مکمل منصوبہ بندی کے باوجود حرم نبوی کو منہدم کرنے کی جراّت نہ کر سکے۔
وہابی قرآن اور سنت میں تأویل کے بجائے آیات اور روایات کے ظاہر پر عمل کرنے کے معتقد ہیں۔ اس بنا پر وہ بعض آیات و روایات کے ظاہر پر استناد کرتے ہوئے خدائے متعال کے اعضا و جوارح قائل ہوتے ہوئے ایک طرح سے تشبیہ اور تجسیم کے معتقد ہیں۔
وہابیت، اہل سنت کے ایک فرقے کا نام ہے جو بارہویں صدی کے اواخر اور تیرہویں صدی کے اوائل میں سعودی عرب میں محمد بن عبدالوہاب کے ذریعے وجود میں آیا، اس فرقے کے پیروکاروں کو وہابی کہا جاتا ہے، وہابی فروع دین میں احمد بن حنبل کی پیروی کرتے ہیں، ان کی اکثریت جزیرہ نمائے عرب کے مشرقی حصے میں مقیم ہے، اس فرقے کے مشہور مذہبی پیشواؤں میں ابن تیمیہ، ابن قیم اور محمد بن عبدالوہاب قابل ذکر ہیں۔