دوستی
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمایا: مَن غَضِبَ عَلَيكَ ثَلاثَ مَرّاتٍ فَلَم يَقُل فيكَ سوءا فَاتَّخِذهُ لَكَ خِلاًّ ۔ (۱)
اگر کوئی تم پر تین بارغضبناک ہو لیکن تمہیں نازیبا باتیں نہ کہے تو اسے دوستی کیلئے اپناؤ۔
خلاصہ: انسان کو دوستی میں خیال رکھنا چاہیے کہ کیسے آدمی سے دوستی لگا رہا ہے، کیونکہ اچھا دوست انسان کی ہدایت کا باعث بن سکتا ہے اور برا دوست انسان کی گمراہی کا سبب بن جاتا ہے۔
ایسے افراد کی صفات کو پہچاننا کہ جنمیں خدا کی پھٹکار کی نشانیاں موجود ہوں ضروری ہے تاکہ ایسے افراد سے دوری بنائی جاسکے کیونکہ اللہ ایسے افراد کی قربت کو پسند نہیں فرماتا۔
«أَ لَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ تَوَلَّوْا قَوْماً غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَا هُمْ مِنْکُمْ وَ لاَ مِنْهُمْ وَ يَحْلِفُونَ عَلَى الْکَذِبِ وَ هُمْ يَعْلَمُونَ»
مومن کی دوستی اور دشمنی کا پیمانہ خداوند سبحان ہے اس لئے وہ ہمیشہ ہوشیار اور بیدار رہتا ہے، اپنے سارے راز، دل کی باتیں اپنے جگری دوست سے بھی نہیں کہتا کہ اس کا اصل محبوب اس کا رب ہے اور مؤمن اختلاف، نزاع و جھگڑے میں اپنے اخلاق و ایمان سے محروم ہونے والے اعمال نہیں کرتا کہ اس کا دشمن انسان نہیں شیطان ہے اور ساری نفرت اور جنگ اسی سے ہونی چاہئے۔
امام صادق علیه السلام:
«التَّوَاصُلُ بَيْنَ الْإِخْوَانِ فِي الْحَضَرِ التَّزَاوُرُ وَ فِي السَّفَرِ التَّكَاتُبُ»
(کافی، ج2، ص 670)
وطن میں دوستوں سے تعلق ایک دوسرے سے ملنا ہے، اور سفر میں، ایک دوسرے کو خط لکھنا ہے۔
خلاصہ: دوستی اپنے شرائط اور حدوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔