گذشتہ سے پیوستہ
حج کے ایام میں اس کی زیادہ کوشش کریں، کیونکہ ان مراسم کے اختتام پر دنیا کے مسلمان جب اپنے شہروں اور علاقوں کی طرف لوٹتے ہیں تو وہ اس عظیم پہلو کو مدِنظر رکھتے ہوئے وہاں کے مسلمانوں اور دنیا کے مظلوموں کو بیدار کرسکتے ہیں۔ امن کے دعویدار ستمگروں کے روز افزوں ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لئے انہیں حرکت اور انقلاب کے لئے تیار کرسکتے ہیں۔" (حوالہ کتاب حج امام خمینی کی نظر میں) امام خمینی بت شکن نے یہ صرف زبانی باتیں نہیں کی ہیں بلکہ عملی مظاہرہ کیا ہے۔ امام خمینی نے حکمِ خدا کے عین مطابق حجاجِ کرام کو حج کے موقع پر مکہ میں وقت کے طاغوتوں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف عوامی مظاہروں کی شکل میں اعلانِ برأت کی ہدایت فرمائی۔ لیکن ظاہر ہے کہ طاغوت کو مسلم اُمہ کی یہ بیداری پسند نہیں آئی، وہ تو اُسی اموی اور عباسی ادوار کے بے روح طریقہِ حج کے عادی تھے۔
چنانچہ 31 جولائی 1987ء کو ایرانی حاجیوں کے ساتھ کچھ اور اقوام کے حاجیوں نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف عوامی مظاہرہ کیا، لیکن سعودی فورسز ان اللہ کے مہمانوں پر ٹوٹ پڑیں جس کے نتیجے میں تقریباً چھ سو حاجی شہید ہوگئے لیکن شہداء کی ڈالی ہوئی یہ رسم 1987ء سے آج تک زندہ ہے ، امام خمینی رضوان اللہ نے اس موقع پر فرمایا تھا: "زائرینِ بیت اللّہ کا قتل استکباری سیاستوں کی حفاظت اور خالص محمدی اسلام کا نفوذ روکنے کے لئے ہے۔
حج کے موقع پر حکمِ خدا، عملِ رسول اللہ اور امام حسین ابن علی علیہما السلام سمیت دورِ حاضر میں امام خمینی رضوان اللہ اور ایت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے سیاسی اقدامات ، حج کے عبادی اور اجتماعی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی پہلوں کو اجاگر کرتا ہے اور یہ پہلو سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ، حج کے اس اہم ترین پہلو کو ترک کرنے کی وجہ یہی ہے کہ ایک عام مسلمان میں کسی طور پر بھی سیاسی بیداری نہ آنے پائے ، ایک عام مسلمان سیاست کو دین سے الگ ہی سمجھتا رہے کیونکہ اسی میں طاغوت کی عافیت ہے۔
جاری ہے ۔۔۔
Add new comment