حج کا عبادی اورسماجی پہلو (۳)

Tue, 05/28/2024 - 12:37

گزشتہ سے پیوستہ

اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو یہ ایک سیاسی دستورِ زندگی ہے، جو رسول اللہ نے بیان فرمایا، جس کے اثرات انسان کی دنیوی اور اخروی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں اور انسان کو ایک دستورالعمل ملتا ہے اور حج کے بعد جب یہ کاروان مدینہ کی طرف سفر کر رہا تھا تو غدیر کے مقام پر وحیِ الہیٰ، رسول اللہ پر نازل ہوتی ہے، جو امت کی باگ ڈور رسول اللہ کے بعد امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو سونپنے کے اعلان کا حکمِ الہیٰ پہنچاتی ہے تاکہ اس حکم کو لوگوں پر نافذ کیا جائے ، اب خدا کی طرف سے عالمی اسلامی کانفرنس کا مقام بدلا، اب یہ میدان میدانِ منٰی نہیں بلکہ میدانِ غدیر ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں بدلا ، پیغمبرِ خدا بھی وہی، حجاج بھی وہی، اہلبیت بھی وہی اور اصحاب بھی وہی ہیں ، اس الہیٰ کانفرنس میں خدا کی طرف سے اہم ترین سیاسی فیصلہ نافذ ہوتا ہے کہ رسول اللہ کے بعد رسول کے جانشین، مسلمانوں کے خلیفہ، مولا و آقا امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ سلام ہونگے۔

اس غدیر کانفرنس سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ حج کے موقع پر مسلمانوں کے اہم ترین سیاسی مسائل پر بحث کرنا اور اس پر عمل پیرا ہونا واجب ہے ، یہاں ایک سوال ذہنوں میں آتا ہے کہ یہ اتنا اہم ترین خدائی فیصلہ، اہم ترین اعلان منٰی میں خطبہِ حجۃُ الوداع میں ہی کیوں نہ کر دیا گیا؟! جی ہاں! اسی سوال میں جواب بھی پوشیدہ ہے چونکہ اعلانِ ولایتِ علی ابن ابی طالب ایک غیر معمولی اعلان ہے، اس کی اہمیت کے پیشِ نظر منٰی کے بجائے غدیر کے مقام کو چنا گیا، تاکہ اس کی اہمیت ثابت ہو اور یہ مسئلہ علیحدہ رہے ، 59 ہجری میں فرزندِ رسول امام حسین علیہ السلام نے عالمِ اسلام کی سرکردہ شخصیات، علماء، اہلبیت، اصحابِ رسول اور تابعین کو دعوت دی کہ اس سال حج پر لازمی شرکت کریں! تاریخ میں ہے کہ اس موقع پر تابعین کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ دو سو اصحابِ رسول نے بھی شرکت کی ، اس طرح کم و بیش ساڑھے سات سو شرکاء امام کی دعوت کے نتیجے میں حاضر ہوئے۔

امام حسین علیہ سلام نے اس کانفرنس میں اپنے حقِ ولایت کی دلیلیں دیتے ہوئے رسول اللہ سے اپنی قرابتداری کو قرآنی آیات، رسول اللہ کے فرامین اور امیرالمومنین کے رسول اللہ کے ساتھ کچھ واقعات کی روشنی میں قربت کو بیان فرمانے کے بعد حکومتِ وقت اور امیر شام کے مظالم کو بیان کیا اور ظلم کے خلاف اٹھنے اور ان مظالم کو لوگوں کے سامنے آشکار کرنے کا حکم دیا لہذا امام حسین علیہ السلام کا حج کے موقع پر حکومتِ وقت کے مظالم اور خیانتوں کو آشکار کرنا ایک اہم دلیل ہے کہ حج ایک سیاسی پہلو رکھتا ہے، جو بنو امیّہ اور بنو عباس کی سازشوں کی زد میں آکر متروک ہوچکا ہے ، امام حسین علیہ السلام کا اقدام سورہ برأت کا تسلسل اور واقعہ غدیر کا احیاء ہے، امام حسین ابن علی کی اس کانفرنس کے اگلے ہی سال، جب امیر معاویہ وفات پا چکے تھے اور یزید ابن معاویہ تخت نشین ہوچکا تھا، نیز نواسہ رسول کو بیعتِ یزید پر مجبور کرنے کا منحوس عمل شروع کیا جا چکا تھا ، اب امام حسین علیہ سلام مدینہ چھوڑ کر مکہ تشریف لے جاتے ہیں اور وہاں سے اپنی انقلابی سیاسی تحریک کا آغاز کرتے ہیں ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
9 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 103