امام حسین ابن علی نے عالمِ اسلام کے ضمیروں کو جھنجھوڑا اور مختلف شہروں میں اپنے سفیر روانہ کئے ، امام حسین علیہ السلام کا آخری انقلابی قدم اُس وقت سامنے آیا، جب امام آٹھ ذی الحجہ کو احرامِ حج کو عمرہِ مفردہ میں تبدیل کرکے کوفہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے، البتہ آیت اللہ جوادی آملی حفظہُ اللّہ کے بقول خاندانِ امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے مکہ کی جانب سفر کے آغاز میں ہی عمرہِ مفردہ کی نیت کرلی تھی، حجِ تمتع کا قصد نہیں کیا تھا ۔ (۱)
بہرحال یہ وہ موقع تھا کہ جب متعدد علاقوں سے عازمینِ حج کے کاروان جوق در جوق واردِ مکہ ہوچکے تھے، جبکہ امام حسین ابن علی ایک مختصر جماعت کے ساتھ حج سے ایک دن پہلے مکہ سے روانہ ہو رہے تھے۔
لمحہِ فکریہ
لمحہِ فکریہ یہ ہے کہ امام حسین ابن علی علیہ السلام ماہِ شعبان سے آٹھ ذیقعدہ تک چار ماہ اور کچھ دن مکہ میں رہے!؟ اگر چاہتے تو آٹھ ذی الحجۃ سے پہلے یا کم از کم یکم ذوالحج کو ہی مکہ چھوڑ دیتے مگر آپ نے ایسا کیوں نہ کیا؟!! لیکن سوال یہ ہے کہ فرزندِ زہراء سلام اللہ علیہا نے آٹھ ذی الحج کو حج سے صرف ایک دن پہلے ہی مکہ کیوں چھوڑا؟ فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا یہ پُرحکمت سیاسی عمل ، یہی پیغام دے رہا ہے کہ حج ہی ایسا بہترین موقع ہے کہ جب بھی کوئی بڑا سیاسی قدم اٹھانا ہے تو اسی الہیٰ تقریب، عالمی کانفرنس سے ہی فائدہ اٹھانا ہوگا ، امام حسین ابن علی علیہما السلام کا یہ اقدام سورۃِ برأت کے واقعہ کی مانند ہے ، وہاں ارادہِ الہیٰ یہ تھا کہ دنیا کے مختلف گوشوں سے آئے ہوئے مہمانانِ خدا سورۃِ برأت کی شکل میں حکمِ خدا اپنے اپنے علاقوں میں لے کر جائیں، وہاں جو لوگ حج پر نہیں آئے تھے، اُن تک یہ حکمِ الہیٰ پہنچ جائے ، یہاں بھی ارادہِ حجتِ خدا یہی ہے کہ امام کا یہ اہم سیاسی اقدام حج پر نہ آنے والے لوگوں تک ایک پیغام کی شکل میں پہنچ جائے ، آئے ہوئے حجاج اِرادی یا غیر اِرادی طور پر سفیرِ حسین بن علی بن جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
۱: جوادی آملی ، عبداللہ ، اسرارِ حج ، ص۲۰۶ ۔
Add new comment