گزشتہ سے پیوستہ
اس آیتِ کریمہ کی روشنی میں اگر تاریخ پر نظر کی جائے تو حج کے اس عظیم سیاسی پہلو کو سب سے پہلے خود رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک فریضہ کی حیثیت سے انجام دیا ، حکمِ خداوندی کے مطابق رسول اللہ (ص) نے سورہ برأت (توبہ) کو نو ہجری کے حج میں لوگوں کے سامنے بیان کرنے کے لئے حضرت ابوبکر کو سورہ برأت کے ساتھ امیرالحاج بنا کر روانہ کیا لیکن بعد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اور اللہ کا پیغام پہنچا کہ: " لن یؤدِّی عنک إلاّ أنت أو رجل منک" یعنی " اعلان برأت کی ذمہ داری کو یا تو بنفسِ نفیس خود انجام دیں یا ایسا شخص جو آپ جیسا ہو۔" (۱) چنانچہ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو بھیجا، جنہوں نے حضرت ابوبکر سے سورہِ برائت لیکر اور امیر الحاج کی حیثیت سے حاجیوں کو پیغامِ الٰہی پہنچایا۔
اس الہی پیغام میں ہے کہ "اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بیزار ہیں" اس اہم الہیٰ پیغام کو خدا کی طرف سے منعقدہ عالمی کانفرنس میں لوگوں کو سنایا جا رہا ہے، جس کے دو مخاطب ہیں، ایک مسلمان اور دوسرے مشرکین ، اگرچہ مشرکین حج نہیں کرتے اور نہ ہی اس اسلامی کانفرنس میں شرکت کرتے ہیں لیکن یہ پیغام اُن تک ضرور پہنچتا ہے ، اس حکمِ قرآنی کے دوسرے مخاطب مسلمان ہیں جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس پیغام کو مشرکین تک پہنچائیں یعنی اُنہیں دعوتِ اسلام دیں اور اس کے لئے تبلیغ اور جہاد کی صورت میں اپنا فریضہ انجام دیں ، رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنا آخری حج انجام دیا اور مِنٰی کے مقام پر خطبہِ حج ارشاد فرمایا: اس خطبہ میں جہاں مسلمانوں کے لئے شرعی احکام اور اخلاقیات کی تلقین فرمائی وہیں اہم سیاسی بیان بھی ارشاد فرمایا کہ: " إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ اَلثَّقَلَيْنِ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي كِتَابَ اَللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي وَ إِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ اَلْحَوْضَ ؛ میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، قرآن اور میری عترت (اہلبیت) اگر ان سے متمسک رہے کہ تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملو ۔ (۲)
جاری ہے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: الغدیر، ج۶، ص۴۷۷ ـ ۴۳۸ ۔
۲: إرشاد القلوب، ج۱، ص۱۳۱ ۔
Add new comment