اللهمّ اعنّی فیهِ علی صِیامِهِ وقیامِهِ وجَنّبنی فیهِ من هَفَواتِهِ وآثامِهِ وارْزُقْنی فیهِ ذِکْرَکَ بِدوامِهِ بتوفیقِکَ یا هادیَ المُضِلّین ۔
اے معبود! اس مہینے میں روزہ رکھنے اور شب زندہ داری میں میری مدد فرما، اور اس مہینے میں ہونے والے گناہوں اور لغزشوں سے مجھے دور رکھ ، اور ہمیشہ اپنا ذکر کرنے کی مجھے توفیق عطا کر، تیری توفیق کا واسطہ اے گمراہوں کو ہدایت کرنے والے۔
ماہ مبارک رمضان کے چھٹے دن مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم خداوند متعال سے تین باتوں کی درخواست فرمارہے ہیں :
۱: «اللَّهُمَّ أَعِنِّی فِیهِ عَلَى صِیَامِهِ وَ قِیَامِهِ ؛ اے معبود! اس مہینے میں روزہ رکھنے اور شب زندہ داری میں میری مدد فرما» ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پہلی ماہ مبارک رمضان کو خداوند متعال سے یہی درخواست فرمائی تھی ، ’’ اللهمَ اجْعلْ صِیامی فـیه صِیـام الصّائِمینَ ؛ اے معبود! میرا آج کا روزہ حقیقی روزے داروں جیسا قرار دے‘‘ ۔
۲: «وَ جَنِّبْنِی فِیهِ مِنْ هَفَوَاتِهِ وَ آثَامِهِ ؛ اور اس مہینے میں ہونے والے گناہوں اور لغزشوں سے مجھے دور رکھ » ۔ کیونکہ گناہیں وہ عمل ہیں جو انسانوں کو خدا سے دور کردیتی ہیں ، اس کی رحمت نازل ہونے سے روک دیتی ہیں اور عذاب الھی نازل ہونے کا سبب بنتی ہیں ، لہذا رسول خدا (ص) فرماتے ہیں کہ خدایا ! ہمیں ان گناہوں اور لغزشوں سے ہمیں دور رکھ ۔
۳: «وَ ارْزُقْنِی فِیهِ ذِکْرَکَ بِدَوَامِهِ ؛ اور ہمیشہ اپنا ذکر کرنے کی مجھے توفیق عطا کر» ۔ یعنی یہ کہ ہم فقط اور فقط ماہ مبارک رمضان میں ہی قران و دعا و نماز و شب و زندہ داری سے مانوس نہ رہیں اور رمضان کے بعد تمام چیزیں فراموشی کے حوالہ ہوجائیں ۔
میرے محترم قارئین ! رمضان المبارک میں ایک ماہ تک انسانوں کی تربیت کی جارہی ہے تاکہ وہ رمضان کے بعد گیارہ ماہ تک اچھی طرح زندگی بسر کرسکیں ، کیا کھائیں اور کیا پیئیں ، کیسے باتیں کریں اور کیا کہیں ، اسی کے تسلسل کی رسول اکرم (ص) خداوند متعال سے دعا کر رہے ہیں ۔
«بِتَوْفِیقِکَ یَا هَادِیَ الْمُضِلِّینَ ؛ تیری توفیق کا واسطہ اے گمراہوں کو ہدایت کرنے والے» ۔
چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام حسین بزّاز کو خطاب کرکے فرماتے ہیں : «ألاَ اُحَدِّثُكَ بِأَشَدِّ ما فَرَضَ اللّهُ عزّوجلّ على خَلقِهِ ؟ کیا میں تمہیں سخت ترین چیز کی خبر دوں جسے خداوند متعال نے اپنے بندوں پر واجب کیا ہے» (۱) ، حسین بزّاز نے عرض کیا فرمایئے تو امام علیہ السلام نے فرمایا :
«إنصافُ الناسِ مِن نَفسِكَ ؛ انسان ، لوگوں کے حق میں انصاف کرے» ، انصاف کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بھی خود کے لئے پسند کرتے ہو دوسروں کے لئے بھی پسند کرو ، اگر غیبت کرنے سے تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو خود بھی نہ کرو ، اگر بے احترامی سے متنفر ہو تو خود بھی کسی کی بے احترامی نہ کرو ، اگر فریج میں رکھے ہوئے کچھ دنوں کا کھانا خود نہیں کھا سکتے ہو تو کسی دوسرے یا فقیر یا نیاز مند کو بھی نہ دو، اگر کسی لباس اور کپڑے کو خود نہیں پہن سکتے ہو تو کسی دوسرے کو بھی نہ دو ، انصاف کا مطلب یہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
۱: مجلسی ، محمد باقر ، بحارالأنوار ، ج۹۳، ص۱۵۴ ، ح۱۷۔ ’’ ألاَ اُحَدِّثُكَ بِأَشَدِّ ما فَرَضَ اللّهُ عزّوجلّ على خَلقِهِ ؟ ··· إنصافُ الناسِ مِن نَفسِكَ ، و مُواساتُكَ لِأخيكَ ، و ذِكرُ اللّه ِ في كلِّ مَوطِنٍ ، أما إنّي لا أقولُ : سُبحانَ اللّهِ ، و الحَمدُ للّهِ ، و لا إلهَ إلاّ اللّهُ ، واللّهُ أكبَرُ ، و إن كانَ هـذا مِن ذاكَ ، و لكِـنْ ذِكرُ اللّهِ في كُلِّ مَوطِنٍ إذا هَجَمتَ على طاعَتِهِ أو مَعصِيَتِهِ‘‘ ۔
Add new comment