گذشتہ سے پیوستہ
۴: بِجودِکَ یا أجْوَدَ الأجْوَدینَ ؛ اے سب سے زیادہ عطا کرنے والے ۔
اس دعا کا چوتھا اور اخری فقرہ ’’بِجودِکَ یا أجْوَدَ الأجْوَدینَ ؛ اے سب سے زیادہ عطا کرنے والے ‘‘ ہے ۔
«سخاوت اور بخشش» «بخل» کے مد مقابل ہے اور معمولا دونوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں مگر کبھی دیکھنے میں ایا ہے کہ «جود» کا مرحلہ «بخشش» سے بالاتر ہے کیوں کہ «جود» کی تعریف اور اس کے معنی میں بیان کیا گیا ہے کہ « بغیر مانگے عطا کرنا ہے اور اپنی دی ہوئی چیز کو چھوٹا سمجھنا ہے» اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ « جود میں عطا کردہ مال کو خدا کا مال سجمھا جائے اور سائل کو خدا کا بندہ جانا جائے اور خود کو فقط وسیلہ سمجھا جائے» ، جبکہ سخاوت کے معنی وسیع تر ہیں اور وہ ہر قسم کے بذل کو بخشش کو شامل ہے ، نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ «اپنے مال کا کچھ حصہ دے دینا اور کچھ کو رکھ لینا ’’سخاوت‘‘ ہے لیکن اپنے مال کے اکثر حصہ کو بخش دینا اور تھوڑی مقدار میں اپنے لئے رکھ لینا ’’جود‘‘ ہے» ۔
لہذا جن لوگوں کو خدا کی قدرت اور اس کی جزاء پر ایمان اور یقین ہے ، انفاق کے وقت ان کے ہاتھ نہیں لرزتے ، «بخل» سے کام نہیں لیتے ، اپنی ضرورتوں کی تکمیل کو «بخل» میں نہیں دیکھتے بلکہ جہاں تک ہوسکتا ہے بخشتے ہیں اور اس کا بدلہ اس ذات سے مانگتے ہیں جو سب سے زیادہ سخاوت مند ، سب کو دینے والا اور تمام چیزوں سے اگاہ اور پر چیز پر قادر ہے ۔
قران کریم کا اس سلسلہ میں ارشاد ہے : بَلْ یَداهُ مَبْسُوطَتانِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشاءُ ؛ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے بخشتا ہے ۔ (۱)
حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں : «أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ جَادَ سَادَ وَ مَنْ بَخِلَ رَذُلَ وَ إِنَّ أَجْوَدَ النَّاسِ مَنْ أَعْطَى مَنْ لَا يَرْجُوهُ» ۔ (۲) اے لوگو ! جس نے عطا و بخشش کیا وہ سید و سردار ہوگیا اور جس نے بخل سے کام لیا جو ذیل و رسوا ہوگیا ، سب سے زیادہ بخشش کرنے والا وہ انسان ہے جو بخشش کرے اور بدلے کی امید نہ رکھے ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اس سلسلہ میں فرمایا: «السَّخاءُ خُلْقُ اللّهِ الاَعْظَمُ ؛ سخاوت ، خدا کا عظیم اخلاق ہے» ۔ (۳) در حقیقت سخاوت خداوند متعال کی ذات سے متجلی ہے کیوں کہ ہم انسانوں کے پاس جو کچھ بھی ہے اسی کی سخاوت کا نتیجہ اور اسی کا عطا کردہ ہے ، مختلف قسم کی نعمتیں ، زمین و اسمان ، زندگی اور اسائش سب کا سب اسی کا عطا کردہ اور اسی کی سخاوت کا نتیجہ ہے کیوں کہ اگر اس نے ہمیں نہ دیا ہوتا تو ہم میں بھی عطا کرنے کی توانائی اور صلاحیت نہ ہوتی ، حتی جود و بخشش کی صفت بھی اسی کی عطا کردہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ مائدہ ، ایت ۶۴ ۔
۲: نزهة الناظر و تنبیه الخاطر، ج۱، ص۸۱ ۔
۳: متقی هندى ، علاءالدین بن حسامالدین ، كنز العمّال ، ح ۱۵۹۲۶ ۔
Add new comment