اللهمَ اجْعلْ صِیامی فـیه صِیـام الصّائِمینَ وقیامی فیهِ قیامَ القائِمینَ ونَبّهْنی فیهِ عن نَومَةِ الغافِلینَ وهَبْ لی جُرمی فیهِ یا الهَ العالَمینَ واعْفُ عنّی یا عافیاً عنِ المجْرمینَ ۔
اے معبود! میرا آج کا روزہ حقیقی روزے داروں جیسا قرار دے ، میری عبادت کوسچے عبادت گزاروں جیسی قرار دے ، آج مجھے غافل لوگوں جیسی نیند سے بیدار کردے ، آج میرے گناہ بخش دے اے جہانوں کے پالنے والے اورمجھ سے درگزر کر اے گناہگاروں سے درگزر کرنے والے ۔
ماہ مبارک رمضان کے پہلے دن کی دعا کی میں مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، خداوند متعال سے پانچ چیزوں کی درخواست فرما رہے ہیں :
۱: اللهمَ اجْعلْ صِیامی فـیه صِیـام الصّائِمینَ ۔ اے معبود! میرا آج کا روزہ حقیقی روزے داروں جیسا قرار دے ۔
پہلی درخواست یہ ہے کہ ان کے روزہ کو سچے روزہ داروں کا روزہ قرار دے ، البتہ یہ گمان نہ ہو کہ رسول خدا (ص) کی یہ دعا فقط پہلی رمضان کے روزے سے مخصوص ہے بلکہ انحضرت پہلی رمضان کو ماہ مبارک رمضان کے تمام روزوں کے لئے یہ دعا فرما رہے ہیں کہ انہیں سچے اور حقیقی روزہ داروں میں شمار کیا جائے اور ان کا روزہ حقیقی روزہ داروں کا روزہ مانا جائے ۔
۲: وقیامی فیهِ قیامَ القائِمینَ ۔ میری عبادت کوسچے عبادت گزاروں جیسی قرار دے ۔
دوسری درخواست یہ کہ ہماری نمازوں اور عبادتوں کو سچے عبادت گزاروں کی عبادت اور نماز قرار دے ، ہمیں طولانی رکوع اور سجدہ کرنے والوں میں شمار کر ، ہمیں حقیقی شب زندہ داروں کی صفوں میں کھڑا کر ، جیسا کہ معصوم اماموں نے فرمایا کہ اس ماہ میں مسلمان نمازیں پڑھنے میں عجلت سے کام نہ لیں بلکہ نمازیں سکون اور اطمینان کے ساتھ پڑھیں ، جس قدر رکوع اور سجدے طولانی کرسکتے ہوں اسے طولانی کریں کیوں کہ طولانی رکوع اور سجدے گناہوں میں تخفیف اور بخشش کا سبب ہے ۔
۳: ونَبّهْنی فیهِ عن نَومَةِ الغافِلینَ ۔ آج مجھے غافل لوگوں جیسی نیند سے بیدار کردے ۔
تیسری درخواست انحضرت (ص) کی خداوند رحیم و کریم سے یہ ہے کہ ہمیں خواب غفلت سے بیدار کردے ، اور ہم کو ہمارے مستقبل کے سلسلہ میں متنبہ اور آگاہ فرمائے کیوں کہ ہماری بہت ساری خطاوں ، لغزشوں اور گناہوں کی بنیاد ہماری غفلت ہے ، انسان جب بھی اپنی اخرت اور شیطانی چالوں سے غافل ہوا ، انحراف کا شکار ہوگیا ، جیسا کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تو وہاں اپ سے خطاب ہوا «يَا اَحْمَدُ اَنْتَ لا تَغْفَلْ اَبَداً مَنْ غَفَلَ عَنِّى لَا اُبَالِى بِاَىٍّ وَادٍ هَلَكَ ؛ اے احمد ہرگز غافل نہ ہو کہ جو بھی مجھ سے غافل ہوا میرے لئے اہم نہیں کہ وہ کس مقام اور کس جگہ ہلاک اور نابود ہوگا» ، (۱) یہ حدیث اس بات پر بخوبی گواہ ہے کہ «غفلت» کی عاقبت اور سرانجام ، ہلاکت اور نابودی ہے ۔
جاری ہے ۔۔
دوسری قسط:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: إرشاد القلوب إلى الصواب، ديلمى، حسن بن محمد، ج ۱، ص ۲۰۵، الباب الرابع و الخمسون (فيما سأل رسول الله ربه ليلة المعراج) ۔
Add new comment