مناجات شعبانیہ کی شرح؛ نویں قسط

Sat, 03/02/2024 - 07:43

گریہ و زاری قلبِ معشوق کو تسخیر کرنے کا بہترین وسیلہ اور رمز و راز ہے اور بہت جلد معشوق کی توجہ عاشق کی جانب جلب کرلیتی ہے ، جیسا کہ دعائے کمیل میں ایا ہے گریہ مومن کا اسلحہ ہے «وَ سِلاحُهُ الْبُکاءُ» ، (۱) ہر دعا کی ابتداء میں گریہ و زاری ہر خدا کی رحمتوں اور دعاوں کی قبولیت کے دروازے کھول دیتی ہے ، جیسا کہ فارسی شاعر نے کہا:

 

چون خدا خواهد که مان یاری کند        

میلِ ما را جانب زاری کند

 

ای خُنُک چشمی که آن گریان اوست   

وی همایون دل که آن بریان اوست

 

آخرِ هر گریه آخر خنده ای است

مردِ آخر بین مبارک بنده ای است

 

هر کجا آبِ روان، سبزه بُوَد      

هر کجا اشک روان رحمت شود

                                    مولانا (۲)

رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے منقول ہے کہ اپ نے فرمایا: «اَلْبُکاءُ مِنْ خَشْیَةِ اللّهِ مِفْتاحُ الرَّحْمَةِ وَ عَلامَةُالْقَبُولِ وَ بابُ الْاِجابَةِ ؛ خدا کے خوف سے گریہ و زاری اس کی رحمتوں کی چابھی، قبولیت کی نشانی اور دعاؤں کے مستجاب ہونے کی علامت ہے»۔ (13)

نیز حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ خداوند متعال نے حضرت موسی علیہ السلام کو وحی کی کہ پسندیدہ ترین وہ اعمال جس کے وسیلہ میرے بندے مجھ سے تقرب حاصل کرتے ہیں وہ تین چیزیں ہیں ، حضرت موسی علیہ السلام نے سوال کیا پروردگارا ! وہ تین خصلتیں کیا ہیں ؟ جواب ملا :

۱: دنیا میں زہد و تقوا ۔

۲: گناہوں سے پرہیز ۔

۳: خدا کے خوف سے گریہ ۔

حضرت موسی علیہ السلام نے خداوند متعال کی بارگاہ میں عرض کیا پروردگارا ! جو ان اعمال کو انجام دے اس کی جزا کیا ہوگی ؟ خداوند عزوجل نے ان پر وحی فرمائی ، اے موسی [علیہ السلام] دنیا میں زہد و تقوا اپنانے والوں کی جزا ، بہشت و جنت ہے ، اور جو لوگ میرے خوف میں انسوں بہائیں گے اور گریہ و زاری کریں گے انہیں بہشت و جنت کا بالاترین مقام حاصل ہوگا اور اس مقام میں کوئی ان کا شریک نہ ہوگا اور جو لوگ گناہوں سے پرھیز کریں گے جس دن سب کے اعمال کی حساب رسی ہوگی اس دن ان کے اعمال کی حساب رسی نہ ہوگی یعنی میری بخشش ان کے شامل ہوگی، (14) فارسی زبان شاعر مولانا کہتے ہیں:

 

کسی را که خدا بخشید گریه  

بیاموزید راه دلگشایی

 

به جز این، گریه را نفعی دگر هست     

ولی سیرم ز شعر و خودنمایی

                                (۵)

اس مناجات اور دعا کے اگلے فقرے میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں «راجِیا لِما لَدَیْکَ ثَوابی» تجھ سے ثواب اور نیکی کی امید لئے ہوں ، دعا کا یہ فقرہ درحقیقت بندہ کا اپنی جانب اپنے معبود کو متوجہ کرانے کا ہنر اور طریقہ ہے ، یعنی بندہ اپنے معبود سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ میں ہزاروں سے امیدوں کے ساتھ تیری بارگاہ میں ایا ہوں ، تو کس طرح ہمیں ناامید اور خالی ہاتھ لوٹائے گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: قمی ، شیخ عباس ، مفاتیح الجنان ، دعائے کمیل ۔

۲: مولانا ، مثنوی ، دفتر اوّل ، بخش ۳۹ ۔

۳: انجیل عیسی مسیح ۔

۴: بلخی مولوی، مثنوی معنوی ۔

۵: مولانا، دیوان شمس ، غزلیات ، غزل شمارهٔ ۲۷۱۰ ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 67