گذشتہ سے پیوستہ
اپنے اور دوسروں کے رازوں کی حفاطت
انسان کے سینہ میں موجود راز دو طرح کے ہوتے ہیں۔
الف۔ خود اپنے ذاتی راز۔
ب۔ دوسروں کے راز۔
اپنے راز کے سلسلے سے سب سے مطمئن اور قابل اعتماد وہ خود ہے اس سے زیادہ کوئی اس کے راز کی نگہہ داری نہیں کرسکتا۔ اور جب انسان اپنے دل کے راز کو خود کسی دوسرے کے سامنے کھول دیتا ہے اور سامنے والے سے تاکید کرتا ہے کہ یہ بات کسی سے نہ کہنا تو ممکن ہے کہ وہ دوسرا شخص بھی کسی تیسرے شخص سے یہی راز اگل دے اور تاکید بھی کرے کہ یہ راز ہم دونوں ہی کے درمیان رہنا چاہئے اور وہ تیسرا شخص کسی چوتھے شخص سے اور اسی طرح سلسلہ وار یہ راز سبھی کو پتہ چل جائے گا اور راز فاش ہوجائے گا ، اسی لئے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اپنے ایک نورانی کلام مین ارشاد فرماتے ہیں : تمہارا راز تمہارا اسیر ہے اور اگر تم نے اپنا راز فاش کردیا تو تم اس کے اسیر ہوجاؤگے۔ (۱)
اگر انسان غور کرے تو راز کے لوگوں میں پھیلنے کی تمام ذمہ داری خود اسی کے کاندھوں پر ہے کیونکہ سب سے پہلی مرتبہ خود اسی نے بغیر سوچے سمجھے بغیر دوراندیشی کے احتیاط کا دامن چھوڑتے ہوئے یہ راز ایسے شخص کے حوالہ کیا جو محرم اسرار نہیں تھا رازوں کی حفاظت کرنے والا نہیں تھا ، لہذا اسے حق نہیں ہے کہ راز کے فاش ہونے پر کسی اور سے ناراض ہو کیونکہ اس راز کے فاش ہونے میں سب سے بڑا ہاتھ خود اسی کا ہے۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے مکتوب نمبر ۳۱ میں جسے آپ نے فرزند حضرت امام حسن علیہ السلام کو خطاب قرار دیتے ہوئے تحریر فرمایا ہے ارشاد فرماتے ہیں : انسان اپنے رازوں کے لئے دوسروں سے زیادہ حفاظت کرنے والا ہے لہذا کتنے ہی ایسے کوشش کرنے والے ہیں جو اپنے نقصان کے لئے کوششیں کرتے ہیں۔ (۲)
اور اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ انسان کے راز بھی دو حال سے خارج نہیں ہیں یا اس کی کامیابی ، ترقی اور سعادت سے متعلق راز ہے یا اس کی ناکامی ، بدبختی اور شقاوت سے متعلق راز ہے اور دونوں صورتوں میں اپنے رازوں کو چھپانا انسان کی ذمہ داری ہے کیونکہ پہلی صورت میں راز کھلنے سے دشمنیاں بڑھنے ، حسادت کے ایجاد ہونے اور بے جا توقعات کے بڑھنے کا خطرہ لاحق ہے جبکہ دوسری صورت میں راز کھلنے سے دشمنون کی خوشی ، دوستوں کی تکلیف اور خود کی ذلت و خواری سبب ہے۔ (۳)
جاری ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱: تمیمى آمدى ، غرر الحکم و درر الکلم، ج ۱ ، ص ۴۲۹ سِرُّكَ أَسِيرُكَ فَإِنْ أَفْشَيْتَهُ صِرْتَ أَسِيرَه۔
۲: نہج البلاغہ ، مکتوب نمبر ۳۱ ، وَ الْمَرْءُ أَحْفَظُ لِسِرِّهِ وَ رُبَّ سَاعٍ فِيمَا يَضُرُّهُ۔
۳: ملّا احمد نراقی ، معراج السّعادة ، ص ۴۱۷۔
Add new comment