علامہ مجلسی رح کی گراں قدر تصنیف بحارالانوار کی ۶۵ ویں جلد کی اکثر احادیث میں شیعوں کی صفات بیان ہوئی ہیں ، علامہ بزرگوار نے اس جلد میں صفات شیعہ کے عنوان سے متعدد احادیث کو اپنی اس عظیم الشان کتاب کی زینت قرار دیا ہے۔
لہذا ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ کم از کم اس عظیم کتاب کی اس جلد کو ضرور مورد مطالعہ قرار دیں تاکہ آئمہ طاہرین علیہم السلام کی نگاہ سے ایک شیعہ کی خصوصیات و صفات کو سمجھ سکیں ، نیز متوجہ ہوسکیں کہ ہم پر اس شیعہ ٹائٹل کے آجانے سے کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ؟ نیز اس بات کو بھی جان سکیں کہ آئمہ طاہرین علیہم السلام ہمیں کیسا شیعہ دیکھنا چاہتے ؟ تاکہ خود کو اس طرح بنانے کی کوشش کریں.
کیونکہ صرف زبانی دعوے سے یا اس بات سے کہ ہمارے ماں باپ شیعہ تھے کوئی شیعہ نہیں بن جاتا بلکہ شیعہ بننے کے لئے اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنا پڑتا ہے ان خصوصیات کا حامل بننا پڑتا ہے جن صفات اور جن خصوصیات کو اہلبیت طاہرین علیہم السلام ایک شیعہ کے اندر دیکھنا پسند کرتے ہیں لہذا شیعہ ہونا ایک بہت بڑا ٹائٹل ہے جو انسان کے کاندھوں پر بہت بڑی بڑی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے اور ان باتوں کو اہلبیت طاہرین علیہم السلام نے صفات الشیعہ عنوان سے احادیث میں بیان کیا ہے۔
شیعوں کو دنیا و آخرت میں کامیابی اور کمال کی منزلیں طے کرنے نیز سعادت کے درجات پر فائز ہونے کے لئے اپنے آئمہ کے راستے پر چلنا ہوگا لہذا ہمارے اور آپ کے پانچویں امام باقرالعلوم حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اپنے ایک شیعہ اور صحابی جناب میسر بن عبدالعزیز کو مخاطب قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔ یَا مُیَسِّرُ أَلاَ اُخْبِرُکَ بِشِیعَتِنَا؟
اے میسر کیا میں تمہیں اپنے شیعوں کے بارے میں خبر دوں؟
میسر عرض کرتے ہیں : قُلْتُ: بَلى جُعِلْتُ فِداکَ ، جی مولا میری جان آپ پر فدا ہوجائے ضرور بتائیے۔
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : قَالَ: إِنَّهُمْ حُصُونٌ حَصِینَةٌ و صُدُورٌ أمِیْنَةٌ وَ أَحْلاَمٌ وَ زِیْنَةٌ لَیْسُوا بالمَذِیعِ البَذِرِ وَ لاَ بِالجُفَاتِ المُرَاعِیْنَ رُهْبَانٌ بِالْلَیلِ اُسُدٌ بِالْنَهارِ؛
الف۔ ہمارےشیعہ مضبوط قلعوں کی مانند ہیں۔
ب۔ ان کے سینہ امانت دار ہوتے۔
ج۔ وہ ایسے صاحبان عقل ہوتے ہیں جن کے اندر متانت اور بھاری پن پایا جاتا ہے۔
د۔ وہ افواہیں نہیں پھیلاتے رازوں کو فاش نہیں کرتے۔
ہ۔ وہ خشک ، سخت اور ریاکار (منافق) نہیں ہوتے۔
و۔ راتوں میں شب زندہ دار اور عباد گذار ہیں۔
ز۔ جبکہ دن میں ایک شیر کی مانند ہیں۔(۱)
جاری ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱: علامہ مجلسی ، بحارالانوار ، ج ۶۵ ، ص ۱۸۰۔ یَا مُیَسِّرُ أَلاَ اُخْبِرُکَ بِشِیعَتِنَا؟ قُلْتُ: بَلى جُعِلْتُ فِداکَ قَالَ: إِنَّهُمْ حُصُونٌ حَصِینَةٌ و صُدُورٌ أمِیْنَةٌ وَ أَحْلاَمٌ وَ زِیْنَةٌ لَیْسُوا بالمَذِیعِ البَذِرِ وَ لاَ بِالجُفَاتِ المُرَاعِیْنَ رُهْبَانٌ بِالْلَیلِ اُسُدٌ بِالْنَها
Add new comment