دلوں کے سردار شھید قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع گزار شھدائے کرمان میں ہونے والے بم بلاسٹ اور اس سانحہ میں ۸۴ بے گناہوں کی شھادت نیز دوسوگیارہ لوگوں کے زخمی ہونے سے دنیا کے دل لرز اٹھے ، حادثہ کی خبر پاتے ہی دوستوں نے غم زدہ گھرانوں کو تعزیت پیش کرنی شروع کی اور دشمنوں نے اپنا دامن جھاڑنا شروع کردیا ، ہر کسی کی نگاہیں بس ایک جانب ٹکی تھیں ، ملزم اور متہم ایک ہی تھا کیوں کہ کڑی سے کڑی مل رہی تھی ، ابھی کچھ ہی دنوں قبل کا تو واقعہ ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سینئر جنرل سید رضی کو لبنان کی سرزمین پر جام شھادت نوش کرنا پڑا ، اسی کی تھوڑی سے مدت کے بعد حماس کے کمانڈر صلاح العاروی کو شھید کردیا گیا اور اسی کے فورا بعد حشد الشعبی کے کمانڈر ابو تقوی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور پھر گلزار شھداء کرمان کا خودش حملہ ۔
اگر چہ بدنام زمانہ ، درندہ صفت اور بھڑیا طبیعت دھشت گرد گروہ داعش نے بیانیہ دے کر اس حملہ کی ذمہ داری قبول کرلی مگر اسلامی جمھوریہ ایران کی اہم شخصیتوں اور منصب داروں کا نظریہ اور ان کا اعتقاد یہ ہے کہ اس حملہ کے پیچھے غاصب اسرائیل کا ہاتھ ہے جو مختلف بہانے سے استقامتی گروہوں خصوصا اسلامی جمھوریہ ایران کو براہ راست غزہ کے خلاف ہونے والی جنگ میں گھنسیٹنا چاہتا ہے تاکہ دنیا کی بڑی طاقتیں بھی براہ راست میدان جنگ میں اترسکیں اور پورا خطہ تیسری عالمی جنگ کی لپیٹ میں آجائے ، لیکن اس ناسنجیدہ عمل انجام دینے کے بعد اظھار سے پرھیز کر رہا ہے کیوں کہ وہ اسلامی جمھوریہ ایران کی قدرت و طاقت سے بخوبی اگاہ ہے اور وہی نہیں بلکہ دیگر بڑی عالمی طاقتیں اور سوپر پاور بھی اس بات سے بخوبی اگاہ ہے کہ وہ ایران سے براہ راست جنگ نہیں کرسکتے ، جنگ نہیں جیت سکتے ، قاسم سلیمانی کے انتقام کے نارے نے اس بات کو بخوبی ثابت کردیکھایا ہے ، آمریکا جس کی طرف کسی کو بھی ٹیڑھی نگاہ کرنے کی ہمت نہیں ہے مگر ایران نے تدفین کی رات اس کے اہم فوجی سنٹر عین الاسد عراق پر میزالوں اور راکٹوں کی برسات کردی ، ایران کی اس جوابی کاروائی میں مرنے اور زخمی ہونے والے امریکن فوجیوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ امریکا نے بے ابروئی اور بے عزتی سے بچنے کے لئے اس کی تفصیل چھپادی ۔
ایت اللہ علم الهدی نے اس ھفتے اپنے خطبہ جمعہ میں اسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اپنا دامن جھاڑ دیا اور اسرائیل کو بچانے کے لئے داعش کو راضی کیا ، ان پر دباو ڈالا کہ اس حملہ کی ذمہ داری لے لے تاکہ اسرائیل محفوظ رہ سکے اور ایران تل ابیب کو مٹی کے ڈھیر میں نہ بدل سکے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
Add new comment