مولانا امین شہیدی: شہدائے کرمان کا خون رائیگان نہیں جائے گا

Thu, 01/04/2024 - 09:11

امت واحدہ پاکستان کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین مولانا امین شہیدی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ شہدائے کرمان، شہدائے کربلا کے راستے پر اپنی جانیں دے چکے ہیں اور باقی لوگ بھی حق و باطل کے اس معرکہ میں انہی شہداء کے نقش قدم پر چلنے کیلئے تیار ہیں۔ چاہے انکا تعلق عراق، ایران، شام، یمن یا فلسطین سے ہو۔ اللہ تبارک تعالیٰ مظلوم کا حامی اور ظالم کا دشمن ہے۔ اگر مظلوم اپنی تمام قوت کیساتھ دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہونے کیلئے تیار ہو تو وہ یقیناً مظلوم کی مدد کریگا اور شہداء کا خون مزید بیداری کا سبب بنے گا۔ ان شا اللہ!

مکمل بیان یہ ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

"مومنین میں ایسے بھی مرد میدان ہیں، جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے۔ ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے۔" (الاحزاب:23) شہید قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کے موقع پر کرمان میں ہونے والے دو دھماکوں میں اب تک دو سو سے زائد مومن مجاہد انسانوں کی شہادت یا زخمی ہونے کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔ یہ یقینی طور پراسرائیل, صہیونیت اور ان کے حواریوں کی کارستانی ہے، جو ایک طرف فلسطین، دوسری طرف شام، تیسری طرف لبنان اور چوتھی طرف ایران کے اندر دہشت گردی کے ذریعے مقاومت کا راستہ روکنے کے درپے ہیں۔ مقاومت یعنی بیداری، مومنین کا ظالم انسانوں کے مقابلہ میں کھڑے ہو جانا، خالی ہاتھوں لیکن ایمان کی قوت کے ساتھ اپنے سے بڑے دشمن کے مقابلہ میں استقامت کا مظاہرہ کرنا اور مادی وسائل کی جگہ اللہ کی مدد پر ایمان رکھتے ہوئے تدبیر اور سمجھ بوجھ کے ساتھ دشمن کی یلغار کا مقابلہ کرنا۔

اس وقت پوری دنیا جاگ چکی ہے اور اسے علم ہے کہ امریکہ، یورپ اور ان کے زیر سرپرستی سانس لینے والا صہیونی اسرائیل، غزہ میں کس قسم کی بربریت اور دہشت گردی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ یہی اسرائیل اس وقت ایران میں دھماکے کرانے کے ساتھ لبنان اور شام میں مجاہدین اور عوام کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حق و باطل کی لڑائی عروج پر ہے اور تمام خدا پرست قوتیں اہل حق کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اس وقت عالم انسانیت کی تمام تر ہمدردیاں حماس اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ اسرائیل کو اپنی رسوائی اور شکست نظر آرہی ہے اور وہ اندرونی طور پر مشکلات، خلفشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ایسے میں اپنے لوگوں کی توجہ اندرونی معاملات سے ہٹانے اور ایران و مقاومت میں موجود قوتوں کو نشانہ بنا کر جنگ میں اپنی کامیابی دکھانے کے لئے ہر وہ حربہ استعمال کر رہا ہے، جس کو نہ اقوام عالم کے قوانین مانتے ہیں اور نہ اقوام متحدہ کے اور نہ ہی ایسے حربوں کو انسانی حقوق کے حوالہ سے کسی طرح کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان حربوں کا ایک ہی جواب ہے کہ مسلم قوتیں پوری طاقت کے ساتھ کھڑی ہوں اور اسرائیل و صہیونیت کے مقابلہ میں اپنی یکجہتی کا اظہار کریں۔ ایران میں کل یعنی 3 جنوری کو عزائے عمومی تھی۔ اندازاً  سو سے زائد لوگ شہید ہوچکے ہیں۔ فلسطین ہی کی طرح سے وہاں پر سینکڑوں گھرانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہم سب کی ہمدردیاں شہداء اور زخمیوں کے ساتھ ہیں اور دعا گو ہیں کہ خداوند متعال انہیں شفائے کاملہ عطا فرمائے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اتنے بڑے حادثہ کا پیغام یہ ہے کہ جہاں پر بھی حق کی آواز اٹھے گی، اس آواز کو دبانے کے لئے یہ انسان دشمن دہشت گرد کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور کہیں پر بھی انسانی اقدار کا خیال نہیں کریں گے۔شہداء کا خون قوم کی مزید مضبوطی اور حق کی باطل پر مزید کامیابیوں کا ذریعہ بنے گا اور عوام کو دشمن کے مقابلہ میں مزید متحد کرے گا۔

جب تشیع جنازہ ہوگا تو دنیا دیکھے گی کہ پوری عوام ان شہداء کے ساتھ کس طرح اظہار یکجہتی کرے گی۔ شہداء کا پاکیزہ خون لوگوں کے اندر یقینی طور پر جذبہ جہاد، جذبہ شہادت اور جذبہ عشق کو مزید شعلہ ور کرنے کا کام انجام دے گا۔ ان شاء اللہ! علامہ امین شہیدی نے کہا کہ شہدائے کرمان، شہدائے کربلا کے راستے پر اپنی جانیں دے چکے ہیں اور باقی لوگ بھی حق و باطل کے اس معرکہ میں انہی شہداء کے نقش قدم پر چلنے کے لئے تیار ہیں۔ چاہے ان کا تعلق عراق، ایران، شام، یمن یا فلسطین سے ہو۔ اللہ تبارک تعالیٰ مظلوم کا حامی اور ظالم کا دشمن ہے۔ اگر مظلوم اپنی تمام قوت کے ساتھ دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہونے کے لئے تیار ہو تو وہ یقیناً مظلوم کی مدد کرے گا اور شہداء کا خون مزید بیداری کا سبب بنے گا۔ ان شا اللہ!

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 10 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 85