خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کی تمام اقسام کے خاتمے کا کنونشن (۳)

Sat, 12/23/2023 - 05:49

گذشتہ سے پیوستہ

اپ فرماتے ہیں کہ حقوق نسواں کے دفاع میں ہمیں «تناسب محور» ہونا چاہئے یا «مساوات محور»؟ ایا «عدالت محور» ہونا درست ہے یا «مساوات محور» ہونا ؟ امتیازی سلوک کے خاتمے کے دعویداروں کا کہنا ہے کہ «مساوات» کو معیار قرار دیں «تناسب» کو نہیں ، چاہئے یہ چیز صنف نسواں کی ظاہری خلقت سے ہم آہنگ نہ ہو ، لیکن حقیقتاً کیا یہ چیز عقل و منطق کے مطابق ہے ؟ یا عقل و منطق کا کہنا ہے کہ ہمیں «عدالت محور» ہونا چاہے ، کیا عقل یہ کہتی ہے کہ ہم گھر میں ایک قسم کا کھانا پکائیں اور وہی دودھ پیتے بچے کو بھی کھلائیں اور بڑوں کو بھی ، یا نہیں عقل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر کسی کی ضرورت کے تحت ہمیں کھانا امادہ کرنا چاہئے ، کیا معاشرہ میں سب سے ایک برابر ٹیکس وصولا جاتا ہے ؟ یا نہیں ہر کسی سے اس کی امدنی کے مطابق ٹیکس لیا جاتا ہے ؟ برابری کا نارہ فقط ایک دھوکہ ہے لہذا صنف نسواں کے سلسلہ میں عدالت کی مراعات کی جائے مساوت و برابری کی نہیں کیوں کہ مرد و زن جسمانی اور روحانی لحاظ سے الگ الگ ہیں ۔ (۱)

حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیا ، اسلام اور دیندار گھرانوں کے خلاف پیترے بدلتی رہتی ہے اور اپنے گھنونے مقاصد کی تکمیل میں مختلف راستے اپناتی ہے ، کبھی موسیقی کی گفتگو کرتے ہیں تو کبھی حجاب اور پردہ کی باتیں ، کبھی مرد و زن کی برابری کی باتیں تو کبھی عورتوں کے استقلال کی گفتگو ، اسلامی ممالک اور ریاستوں کو ہرگز ان کے دباو میں نہیں آنا چاہئے بلکہ اسلام ، قران اور رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی باتوں اور سیرت کو اپنی زندگی کا میعار قرار دینا چاہئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: https://www.makarem.ir/maaref/fa/article/index/419388

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 9 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 41