حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی استقامت اور مزاحمت کے سلسلہ میں لاتعداد روایتیں اور فراوان تاریخی شواھد موجود ہیں کہ ہم اس مقام پر فقط کچھ کی جانب اشارہ کرنے پر اکتفاء کررہے ہیں۔
ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب «الامامة و السیاسة» میں تحریر کرتے ہیں کہ «ابوبکر نے ان لوگوں سے جنہوں نے ان کی بیعت کا انکار کیا تھا اور امام علی علیہ السلام کے اردگرد اکٹھے ہوگئے تھے ، سوال کیا اور عمر کو ان کے پاس بھیجا ، عمر نے انہیں آواز دی مگر وہ لوگ امام علی علیہ السلام کے گھر سے باہر نہیں آئے لہذا عمر نے آگ و لکڑیاں منگوائی اور کہا کہ یا تو تم لوگ باہر نکل اؤ یا پھر مکان کو مکینوں کے ساتھ آگ لگا دوں گا!
انہیں جواب ملا کہ اے اباحفص ! اس گھر میں فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ہیں ۔ عمر نے جواب دیا ، چاہے فاطمہ ہی کیوں نہ ہوں ۔۔۔ !
امام علی علیہ السلام نے فرمایا: «حلفت ان لااخرج و لااضع ثوبی علی عاتقی حتی اجمع القرآن ؛ میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک قران جمع نہ کرلوں گھر سے باہر نہ نکلوں اور اپنے کپڑے اپنے دوش پر نہ ڈالوں» ۔ (۱)
اس گھڑی حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا دروازے کے پیچھے کھڑی ہوگئیں اور فرمایا: «لاعهد لی بقوم حضروا اسوا محضر منکم ترکتم رسول الله صلی الله علیه و آله جنازة بین ایدینا و قطعتم امرکم لم تستامرونا و لم تردوا لنا حقا ؛ میں نے تم سے زیادہ بداخلاق امتی نہیں دیکھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جنازہ ہمارے گھر میں رکھا رہا اور تم لوگ خلافت ہتھیانے میں لگے رہے ، ہم سے ہماری رای نہیں لی اور ہمیں ہمارا حق بھی نہیں دیا»۔ (۲)
دینوری مزید تحریر کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا منھ توڑ اور روشن جواب سن کر ان لوگوں کے ہوش اڑ گئے کیوں کہ وہ نہیں چاہتے کہ اہل مدینہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے غضب اور اپ کے غصہ سے باخبر ہوں ، دوسری اور تیسری دفعہ وہ لوگ خود نہیں ائے بلکہ انہوں نے قنفذ کو بھیجا کہ امام علی علیہ السلام کو ابوبکر کی بیعت کے لئے لیکر ائے مگر امام علی علیہ السلام نے قبول نہیں کیا اور جب ان کی کوششیں کارگر ثابت نہ ہوئیں تو پر عمر کچھ لوگوں کے ہمراہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر ایا اور اس نے دق الباب کیا ، دروازہ کی کنڈی کھٹکھٹائی ، جب حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے ان کا شور و غل سنا تو حضرت علیہا السلام نے اس بار عمر و ابوبکر کو اپنا مخاطب قرار دیا اور بلند آواز میں فریاد کی «یا ابت یا رسول الله، ماذا لقینا بعدک من ابن الخطاب و ابن ابی قحافة ؛ اے بابا ، اے رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہم نے اپ کی رحلت کے بعد ابن خطاب (عمر) اور ابن قحافہ (ابوبکر) سے کیا تکلیفیں اٹھائی ہیں» ۔ (۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: خوئی ، میرزا حبیبالله ، منهاج البراعة فی شرح نهج البلاغة ، ج ۱۹، ص۱۸۱ ۔
۲: طبرسی ، احمد بن علی بن ابی طالب ، الاحتجاج : ج ۱ ص ۲۰۲ ح ۳۷ ۔
۳: طبری، ابو جعفر محمد بن جرير، تاريخ الامم و الملوک المشھوربتاريخ الطبری، ج۲، ص۲۳۶ ۔
Add new comment