گذشتہ سے پیوستہ
اس روایت میں نبی گرامی اسلام نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کو حق کا محور اور مرکز قرار دیا ہے یعنی جہاں جہاں حضرت علی علیہ السلام ہوں گے وہاں وہاں حق ہوگا۔
یہ حدیث ہمیں حق کو باطل سے پہچاننے کا صحیح معیار اور صحیح ملاک بتا رہی ہے اور وہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ہیں ، لہذا ہم روایات میں دیکھتے ہیں کہ اوائل میں جب مومنین اور منافقین کی شناخت نہیں ہوپاتی تھی تو مومن کو منافق سے پہچاننے کا جو معیار رائج تھا وہ یہی معیار تھا یعنی امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے ذریعہ مومن کو منافق سے پہچانتے تھے یعنی تشخیص کا معیار علی علیہ السلام کی ذات تھی۔ (۱)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک روایت میں جناب عمار یاسر کو خطاب کرکے ارشاد فرماتے ہیں : اے عمار جب تم علی کو دیکھنا کہ ایک جانب جا رہے ہیں اور دوسرے تمام لوگ دوسری جانب جا رہے ہیں تو تم علی کے ساتھ جانا اور دوسرے لوگوں کو چھوڑ دینا ، یقین جانو کہ وہ تمہیں ہلاکت کے راستے پر نہیں لے جائیں گے اور ہدایت کے راستے سے خارج نہیں کریں گے۔ (۲)
اسی طرح آپ ایک دوسری حدیث میں جناب ابن عباس سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتے ہیں : اے ابن عباس عنقریب لوگ داہنے اور بائیں جائیں گے جب ایسے حالات پیدا ہوں تو تم علی اور ان کے گروہ کی پیروی اور اتباع کرنا کیونکہ علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہونچیں۔ (۳)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان احادیث کے ذریعہ ہماری راہنمائی فرما رہے ہیں کہ میرے بعد راہ حق ، فقط راہ علی ہے راہ دین خدا ، فقط راہ علی ہے اس کے علاوہ ہر راستہ گمراہی ہے ، ضلالت ہے ، دین خدا سے دوری ہے ، انحراف ہے۔
ان روایات کا مطالعہ کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امیرمومنین حضرت علی علیہ السلام کی ذات والا صفات ، خیر کا منبع اور سعادت بشر کا سرچشمہ اور انسانی ہدایت کا راستہ و نشان ہے ، اور یہیں سے صدیقہ کبری سلام اللہ علیہا کے اقدامات کی اہمیت ہمارے لئے واضح اور روشن ہوتی ہے کہ آپ نے بشریت کو اس راستے کی جانب راہنمائی فرمائی جس راستے کو پروردگار عالم اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کی ہدایت کے لئے معین کیا تھا ، اور اس راہ میں آپ نے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کردیا۔
جاری ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱:
۲: شیخ حر عاملی ، إثبات الهداة بالنصوص و المعجزات ، ض ۳ ، ص ۲۶۴ ، وَ بِإِسْنَادِهِ عَنْ عَمَّارٍ عَنِ اَلنَّبِيِّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ فِي حَدِيثٍ قَالَ: إِذَا رَأَيْتَ عَلِيّاً سَلَكَ وَادِياً، وَ سَلَكَ اَلنَّاسُ وَادِياً، فَاسْلُكْ مَعَ عَلِيٍّ وَ دَعِ اَلنَّاسَ، إِنَّهُ لَنْ يُدْلِيكَ فِي رَدًى، وَ لَنْ يُخْرِجَكَ مِنَ اَلْهُدَى۔
۳: علی بن محمد خزاز ، کفاية الأثر في النص على الأئمة الإثني عشر ، ج ۱ ، ص ۲۴ ؛ علامہ مجلسی ، بحارالانوار ، ج ۳۶ ، ص ۲۸۶ ، یا بنَ عَبّاسٍ، سوفَ یأخُذُ النّاسُ یمینا و شِمالاً، فَاِذا کانَ کذلِک فَاتَّبِع عَلِیا و حِزبَهُ؛ فَاِنَّهُ مَعَ الحَقِّ وَ الحَقُّ مَعَهُ، و لا یفتَرِقانِ حَتّی یرِدا عَلَی الحَوضَ۔
Add new comment