6 دسمبر ھندوستانی مسلمانوں کے لئے وہ سیاہ دن ہے جس دن مسلمانوں کی عظیم تاریخی عبادتگاہ لاکھوں نگاہوں کے سامنے شدت پسند ھندوں کے ہاتھوں زمین بوس کردگئی اور ہمیشہ ہمیشہ کے ائندہ نسلوں کے لئے تاریخی داستان بن کر رہ گئی ۔
امسال اس تاریخی مسجد کے 31 سال مکمل ہوگئے ، عدالت کے فریادی کروڑوں مسلم اج بھی عدالت کی تلاش میں بھٹکتے پھر رہے ہیں ، تظاھرات ، اجتماعات ، جلسہ و جلوس اور پروگرام کے سوا ان سے کچھ بھی بر نہ ایا کیوں کہ اب نہ حکومت جمھوری ہے اور نہ عدالت میں جمھوری اقداروں کا پاس لحاظ رکھا جاتا ہے ، بس یوں کہا جائے کہ جس کی لاٹھی اس بھینس ۔
تاریخی اشارہ:
دسمبر1992 عیسوی کو اترپردیش کے شہر ایودھیا میں ہر سال کی طرح انتہا پسند ہندووٴں یعنی کارسیوکوں کا جم غفیر تھا جو بابری مسجد کو شھید کرنے کے غرض سے وہاں اکٹھے ہوئے تھے ، مسلمان بے چینی کا شکار تھے، مگر ایودھیا تک پہنچنے کے لئے ان پر تمام راستے بند تھے، ہمیشہ کی طرح انکھ موند کر حکومت کے بھروسے رہے کہ میری حکومت جمھوری حکومت ہے ہر مذھب کے جزبات ، عقائد و نظریات اور مقدس مقامات کا پاس و لحاظ رکھا جائے ، اس کی حفاظ کی جائے گی اور مسجد کو بھی کچھ نہ ہوگا ۔
مگر ھندوستان کے سادہ لوح مسلمان اپنے خلاف بھارتیا جنتا پارٹی کی جانب سے رچی جانے والی گھناؤنی سازش سے بلکل بے خبر تھے اور کلیان سنگھ نے اترپردیش کے دارالحکومت لکھنو میں وزیر اعلیٰ کا مںصب پر بیٹھتے ہی بابری مسجد کی جگہ مندرم تعمیر کرنے کے کام کو تیز کردیا کیوں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی، راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ، وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور تمام شدت پسند ھندو طاقتیں ان کے ساتھ اور اس کام کی منتظر تھیں ۔
چشم دید گواہ صحافیوں کے بیان کے مطابق کہ جو سوشل میڈیا اور یوٹوب پر موجود ہیں اس بار انتہا پسند ھندو پوری تیاری سے آئے تھے ، کلہاڑی، ہتھوڑے، بیلچے اور دیگر اوزار ان کے قافلے میں موجود تھے ، جیسے ہی معینہ دن اور تاریخ یعنی ۶ دسمبر کی صبح نمودار ہوئی ، سیاسی لیڈرس موقع واردات پر پہنچ گئے اور صحافیوں کو وہاں سے دور کردیا گیا ، ان کے کیمرے توڑ دیئے گئے یا انہیں چھین لیا گیا ، بھیڑ نے جے شری رام کے نارے لگانے شروع کردئے اور مسجد پر حملہ کردیا ، حفاظتی دستے مسجد کی حفاظت کے بجائے پیچھے ہٹ گئے کیوں کہ انہیں آتی ہوئی بھیڑ کو روکنے سے منع کیا گیا تھا۔
مسجد دیکھتے دیکھتے لمحوں میں مٹی کے ڈھیر میں بدل گئی اور مسجد کی جگہ مورتیاں رکھ دی گئی ، صحافی بیان دیتے ہیں کہ حفاظتی دستے گری ہوئی مسجد پر افسوس کرنے کے بجائے اپنے بتوں کی پوچا کر رہے تھے ۔
بابری مسجد کی شہادت کو لیکر مختلف مقامات پر مسلمانوں نے شدید احتجاج اور مظاھرے کئے جو مذھبی فساد کے رنگ میں ڈھل گئے اور نتیجے میں 2 ہزار سے زائد مسلمان شہید جب کہ ہزاروں زخمی ہوئے ۔
2009 عیسوی میں جسٹس منموہن سنگھ کی تحقیقاتی رپورٹ میں بی جے پی رہنماوٴں سمیت 68 افراد کو موردالزام ٹھہرایا گیا، سربراہ بھارتی انٹیلی جنس بیورو ملوئے کرشنا کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کی شہادت کا منصوبہ بی جے پی، راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد نے 10 ماہ پہلے بنایا۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد بی جے پی کی لوک سبھا میں سیٹیں 121 سے بڑھ کر 188 ہوئیں، 9 نومبر 2019 عیسوی کو سنڑ میں بی جے پی کی حکومت تشکیل پانے کے بعد سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت میں ملوث تمام ملزمان کو بری کردیا ۔
ہیومن رائٹس واچ نے ایودھیا میں بابری مسجد کی بے حرمتی بین الاقوامی اصولوں کے منافی اور اقلیتوں کے مذہبی حقوق کی سنگین خلاف ورزی بتایا ۔
Add new comment