گذشتہ سے پیوستہ
وہ شخص آپ سے دریافت کرتا ہے ، تو علی نے کیوں خاموشی اختیار کی اور اپنے حق کو نہیں لیا ؟
آپ اس کے جواب میں فرماتی ہیں : اے ابا عمر رسول اللہ ص فرماتے ہیں : امام کی مثال کعبہ جیسی ہے اس کے پاس جایا جاتا ہے نہ کہ وہ تمہارے پاس آئے گا ( یعنی لوگ اس کے ارد گرد طواف کرتے ہیں نہ کہ وہ لوگوں کے گرد طواف کرے ) ، پھر آپ فرماتی ہیں قسم خدا کی اگر لوگ حق ( یعنی امامت ) کو اس کے اہل ( یعنی علی ) کے حوالے کردیتے اور نبی کی عترت کی پیروی کرتے تو دو لوگ بھی اللہ کے بارے میں ( دین کے سلسلے سے ) اختلاف نہ کرتے ، اور امامت کا یہ سلسلہ علی ع سے لیکر ہمارے قائم عج تک جو کہ امام حسین ع کی نویں نسل سے ہیں ، نسل در نسل جانشینی اور میراث کی شکل میں چلتا رہتا۔
لیکن افسوس اسے آگے بڑھا دیا گیا جسے خدا نے پیچھے کیا تھا اور اسے پیچھے کرد یا گیا جسے خدا نے آگے بڑھایا تھا ، انہوں نے بعثت کے نتیجہ کا انکار کیا اور بدعتوں کی جانب رخ کرلیا ، اپنی شہوتوں کے ذریعہ انتخاب کیا اور اپنی آراء پر عمل کیا۔
ہلاکت و نابودی ان کا سرانجام ہو ، کیا انہوں نے اللہ کا یہ کلام نہیں سنا : ’’اور (اے رسول) آپ کا پروردگار جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) منتخب کرتا ہے لوگوں کو کوئی اختیار نہیں ہے۔‘‘ (۱)
انہوں نے سنا لیکن ان کی حالت وہی ہے جیسا کہ قرآن فرماتا ہے : ’’مگر (حقیقت یہ ہے کہ) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘ (۲)
افسوس انہوں نے دنیا میں اپنی آرزؤں کو تو پورا کیا لیکن موت اور قیامت کو بھلا دیا ، خدا انہیں نابود کرے اور انہیں ان کے کاموں میں گمراہ کرے ، اے میرے پروردگار! میں تیری پناہ چاہتی ہوں ان کی کامیابی اور ان کے ساتھیوں کی فراوانی کے بعد اپنے ساتھیوں کی کمی اور قلت پر۔ (۳)
اس طولانی حدیث میں صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا ، اہلبیت طاہرین علیہم السلام کی ولایت اور امامت کو اختلافات سے بچنے کا سبب اور تفرقہ سے دور ہونے کا ذریعہ بتا رہے ہیں اور اس کے مقابل اہلبیت طاہرین علیہم السلام کی ولایت و امامت سے دوری کو اختلافات کا سبب اور تفرقہ کا ذریعہ بتا رہی ہیں۔
یعنی معصومہ سلام اللہ علیہا یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ تم نے وہ ستون جس پر تکیہ کرکے امت اختلاف سے بچ سکتی تھی ، اس کا وقار باقی رہ سکتا تھا ، اسے تباہ کردیا ہے ، اسے نابود کردیا ہے۔ جس باعث تلاطم ہے ، اب چاہتے ہو یہ تلاطم ختم ہوجائے تو تمہارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ بیماری کا صحیح علاج کرو اور صحیح علاج صرف اہلبیت طاہرین علیہم السلام کی امامت و ولایت سے تمسک اختیار کرنے میں ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: سورہ قصص ، آیت ۶۸ ، وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ۔
۲: سورہ حج ، آیت ۴۶ ، فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ۔
۳: ابن خزاز قمی ، کفایة الاثر ، ص ۱۹۹ ؛ علامہ مجلسی ، بحارالانوار ، ج ۳۶ ، ص ۳۵۳ ؛ شهید ثالث ، احقاق الحق ، ج ٢١ ، ص ٢٦ ، قالَتْ وَ اعَجَباهْ أَنَسیتُمْ یَوْمَ غَدِیرِ خُمٍّ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ یَقُولُ: عَلِیٌّ خَیْرُ مَنْ أخَلِّفُهُ فِیکُمْ وَ هُوَ الْإمامُ وَ الْخَلِیفةُ بَعْدِی، وَ سِبْطایَ وَ تِسْعَهٌ مِنْ صُلْبِ الْحُسَیْنِ(ع) أَئِمَّةٌ أَبْرَارٌ، لَئِنِ اتَّبَعْتُمُوهُمْ وَ جَدْتُمُوهُمْ هادِینَ مَهْدِیِّینَ، وَ لَئِنْ خَالَفْتُمُوهُمْ لَیَکُونُ الإخْتِلَافُ فیکُمُ إلی یَوْمِ الْقِیَامَةِ؟ قُلْتُ: یَا سَیِّدَتی فَمَا بَالُهُ قَعَدَ عَنْ حَقِّهِ؟ قالَتْ: یَا بَا عُمَرَ لَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ(ص): مَثَلُ الْإمَامِ مَثَلُ الْکَعْبَةِ اِذْ تُؤْتَی وَ لا تَأْتِی. أَما لَوْ تَرَکُوا الْحَقَّ عَلی أَهْلِهِ وَ اتَّبَعُوا عِتْرَةَ نَبِیِّهِ لَمَا اخْتَلَفَ فِی اللهِ إثنَانِ، وَ لَوَرِثَهَا سَلَفٌ عَنْ سَلَفٍ وَ خَلَفٌ بَعْدَ خَلَفٍ حَتَّی یَقٌومَ قَائِمُنَا التَّاسِعُ مِنْ وُلْدِ الْحُسَیْنِ وَ لَکِنْ قَدَّمُوا مَنْ أَخَّرَهُ الله وَ أَخَّرُوا مَنْ قَدَّمَهُ اللهُ: حَتَّی اِذَا أَلْحَدَ الْمَبْعُوثُ وَ أَوْدَعُوهُ الْجَدَثَ الْمَجْدُوثَ وَ إِخْتَارُوا بِشَهْوَتِهِمْ وَ عَمِلُوا بِآرَائِهِمْ تَبّاً لَهُمْ أَوَ لَمْ یَسْمَعُوا اللهَ یَقُولُ: «وَ رَبَّکَ یَخْلُقُ ما یَشاءُ وَ یَخْتارُ ما کانَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ»؟ بَلْ سَمِعُوا وَ لکِنَّهُمْ کَمَا قَالَ اللهُ سُبْحَانَهُ: «فَاِنَّها لا تَعْمَی الْأَبْصارُ وَ لکِنْ تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِی فِی الصُّدُور» هَیْهَاتَ بَسَطُوا فِی الدُّنْیَا آمَالَهُمْ وَ نَسُوا آجَالَهُمْ فَتَعْساً لَهُمْ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ أَعُوذُ بِکَ یَا رَبِّ مِنَ الْحَوْرِ بَعْدَ الْکَوْر.
Add new comment