حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام نے فرمایا:
حُبِّبَ اِلَیَّ مِن دُنیاکم ثَلاثُ: تِلاوَةُ کِتابِ اللهِ وَ النَّظَرُ فی وَجهِ رَسُولِ اللهِ وَالإنفاقُ فی سَبیلِ الله ۔ (۱)
تمھاری دنیا میں سے مجھے تین چیزیں پسند ہیں:
۱: تلاوت قرآن
۲: رسول خدا(ص) کی زیارت
۳: خدا کی راہ میں انفاق اور ضرورتمندوں کی مدد
مختصر تشریح:
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے اس حدیث کی روشنی میں دنیا اور اخرت کے درمیان اخرت کو پسند کیا اور اپنی سیرت کو فقط ضروریات زندگی پر قناعت کرنے پر رکھا نیز اضافی اسباب و وسائل اور مال و دولت کو راہ خدا میں انفاق کرنے میں بہتری جانا ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے وسیلہ اپ کو فدک عطا کئے جانے کے بعد ، فدک کی تمام درآمدیں بھی حضرت علیہا السلام کے اختیار میں اگئیں ، فدک ایک زرخیز زمین تھی جس سے مدینہ کا پورا گیہوں تامین ہوتا تھا ، فدک کی سالانہ امدنی 70000 سے لیکر 120000 سونے کا سکّہ تھی ، (۲) یہ تمام کی تمام درآمدیں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے اختیار میں دی جاتی تھیں مگر حضرت علیہا السلام اپنی ضرورت کے بقدر الگ کرنے کے بعد باقی ضرورتمندوں اور فقراء کے درمیان تقسیم کردتی تھیں ، (۳) ضرورتمند افراد ہمیشہ فدک کی امدنی حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے ہاتھوں تک پہونچنے کے منتظر رہتے تھے تاکہ اپ کے انفاق سے ان کی زندگی کی جان پڑسکے ۔
جی ہاں! حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا دنیا سے اظھار بے نیاز فرماکر فدک کی تمام درامد، خدا کی خوشنودی میں فقیروں ، نیازمندوں اور ضرورتمندوں کے درمیان تقسیم فرمادیتی تھیں ۔
جی ہاں ! اپ کی سادہ زیستی عرفان کا کمال اور اپ کی روح کی عظمت و بلندی کی بیانگر ہے ۔
امام موسی کاظم علیہ السلام سے روایت ہے کہ اپ نے فرمایا: خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ میں نے مالدار اور سرمایہ دار کو اسے اپنی قربت اور اپنے نزدیک عظمت کی وجہ سے مالدار نہیں کیا اور فقیر و بے کس کو اپنی دوری اور میری توہین کی وجہ سے فقیر و بے کس نہیں کیا بلکہ میں سرمایہ داروں کو فقیروں کے وسیلے آزماتا ہوں کیوں کہ اگر فقیر نہ ہوتے تو ہرگز سرمایہ دار جنت کے حقدار نہ ہوتے ۔ (۴)
حضرت امیرالمومنین على ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : «خداوند متعال نے ضرورتمندوں اور فقیروں کی روزی مالداروں اور سرمایہ داروں کے مال میں رکھی ہے ، ضرورتمند بھوکھا نہیں رہے گا مگر یہ کہ مالدار نے اس کا حق کھا لیا ہو» ۔ (۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: ملا علی آقا خیابانی واعظ تبریزی، وقایع الایام، ص ۲۹۵ ۔
۲: مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج ۲۹، ص ۱۱۶۔
۳: شیخ حرعاملی، محمد بن حسن ، انبات الهداة، ج ۲، ص ۱۱۶ ۔
۴: کلینی ، اصول كافی ، ج۲ ، ص۲۶۵ ؛ و نمونہ معارف اسلام، ج ۱۳، ص ۴۱۷ ۔
۵: نھج البلاغہ ، حکمت ۳۲۸ ۔ «إنَّ اللّهَ سُبحانَهُ فَرَضَ فى أَمْوالِ الأغْنِیاءِ أَقْواتَ الفُقَراءِ فَما جاعَ فَقیرٌ إلاَّ بِما مُتِّعَ بِهِ غَنىٌ»
Add new comment