عقیلہ بنی ہاشم ، ثانی زہراء جناب زینب کبری سلام اللہ علیہا کی زندگی اس قدر پاک و پاکیزہ حیات اور عظمت و بلندی کردار و صفات کی حامل ہے کہ آپ کو معصومہ کونین صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی ثانی اور نائبہ کا لقب حاصل ہوا ہے اور آپ کو امام معصوم علیہ السلام کی جانب سے عالمہ غیر معلمہ اور فھمہ غیر مفھمہ کا عظیم ترین لقب ملا ہے ، سید الساجدین زین العابدین حضرت امام سجادعليہ السلام اپنی اس باعظمت پھوپھی کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : اے پھوپھی اماں آپ بحمداللہ وہ عالمہ ہیں جسے کسی نے تعلیم نہیں دی اور آپ وہ سمجھنے والی خاتون ہیں جسے کسی نے سمجھایا نہیں (۱) ، آپ کو عابدہ آل علی کا عنوان نصیب ہوا ہے (۲) کیونکہ آپ کے سجدوں اور نماز شب نے ہمیں عبادت کا سلیقہ اور ہنر سکھایا ہے آپ نے ان حالات میں عبادت کی ہے جبکہ ایک عام خاتون اپنے حواس نہیں رکھ سکتی ، شریکہ الحسین آپ ہیں۔ (۳)
یہ رتبہ اور القابات وہ کم نظیر رتبہ ہے اور بے نظیر القابات ہیں جس تک غیر معصوم ذوات میں بہت کم شخصیات پہونچ سکیں ہیں کیونکہ یہ تعریف و توصیف اس ہستی کی تعریف و توصیف ہے جس نے معصوم آغوشوں میں آنکھ کھولی اور تربیت پائی ہے سیدہ نساء العالمین خاتون جنت جیسی کائنات کی عظیم ماں کا پاکیزہ شیر پیا ہے اور امیرالمومنین امام المتقین سیدالوصیین جیسے کائنات کے عظیم باپ کی آغوش تربیت میں پروان چڑھیں ہیں اور جوانان جنت کے سردار بھائیوں کی سرپرستی میں زندگی گذاری ہے۔
آپ کی زندگی سے متعدد درس حاصل ہوتے ہیں آپ کی حیات طیبہ ہمارے لئے آئیڈیل اور نمونہ عمل ہے ، ایک اہم درس جو آپ کی جد و جہد اور تلاش و کوشش سے بھری ہوئی زندگی میں بہت نمایاں ہے وہ استقامت کا درس ہے ، ثبات قدمی کا درس ہے ، ایمان و ہدایت کی راہ میں پامردی کا درس ہے ، اللہ کی ذات سے لو لگانے اور اسی سے امید باندھنے کا درس ہے۔
یزید پلید کے دربار میں آپ کا تاریخی خطبہ اگر ایک طرف سے فصاحت و بلاغت میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے تو دوسری جانب سے اس خطبہ میں ثبات قدمی ، پامردی ، استقامت اور اللہ سے امید و لو لگانے کے وہ درس ملتے ہیں جس کی نظیر دوسری غیر معصوم شخصیات میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی شیر دل بیٹی اپنے بابا کے لب و لہجے میں اسی ٖفصاحت و بلاغت کے ساتھ ، دلوں میں ایمان کی چاشنی گھول گئی ، شجاعت کا رنگ بھر گئی ، علی کے انداز میں ثانی زہراء حضرت زینب علیا مقام نے بتلایا کہ ظالم و ستمگر کے سامنے کس طرح کلمہ حق بولا جاتا ہے ، اور زبان و بیان کی قوت کو شمشیر و سناں سے زیادہ تیز اثر دے کر کس طرح لوگوں کے دلوں میں اثر چھوڑا جاتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: علامہ مجلسی ، بحار الأنوار ، ج ۴۵ ، ص ۱۶۴۔ أنتِ بِحَمدِ اللّه عالِمَةٌ غَيرُ مُعَلَّمَةٍ، فَهِمَةٌ غَيرُ مُفهَّمَةٍ۔
۲: ذبیح اللہ محلاتی ، ریاحین الشریعہ ، ج ۲ ص ۶۲۔
۳: حسن الهی ، زینب کبری عقیلہ بنی هاشم ، ص ۶۲ – ۶۳۔
Add new comment