اسلامی جمہوریہ ایران کی دعوت پر ۱۱ نومبر کو اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت کا مشترکہ اجلاس سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقد ہوا جس کی میزبانی مشترکہ طور پر بائیس عربی زبان بولنے والے ممالک کی نمائندہ تنظیم ، عرب لیگ اور ستاون اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم ، اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی ) نے انجام دی۔ اس اجلاس کے اختتام پر اسرائیلی جارحیت و بربریت کی مذمت کا بیانیہ جاری کیا گیا نیز اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کی تاکید کی گئی اور اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ اس مسألہ پر ایک ہنگامی اجلاس منعقد کرے۔
اس اجلاس میں سب سے اہم تقریر ایران کے صدر حجت السلام جناب سید ابراہیم رئیسی صاحب کی تھی (۱) آپ نے اس اجلاس میں امت مسلمہ کے سامنے بہترین تجاویز رکھیں اور مسلم حکمرانوں کو اس مخمصمہ سے نکلنے کی راہیں پیش کیں تاکہ آئندہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم بھی فلسطین کی حمایت میں آگے آنا چاہتے تھے لیکن ہمیں بلایا نہیں گیا ، آپ نے مندوبین کے سامنے مندرجہ ذیل دس تجاویز رکھیں۔ پہلی تجویز : فوری اقدام ، غزہ میں قتل و غارت کو روکنا اور تعلیمی اداروں ، ہسپتالوں اور کیمپوں پر ہونے والے جاری حملوں کو رکوانا۔
دوسری تجویز: غزہ کی انسانی ناکہ بندی کا مکمل خاتمہ اور رفح کراسنگ کو فوری اور غیر مشروط طور پر دوبارہ کھولنا مصری بھائیوں کے تعاون سے امداد کی ترسیل اور غزہ میں خوراک اور ادویات کے داخلے کو ممکن بنانا ۔ اس سربراہی اجلاس میں اسلامی ممالک کے معزز سربراہان کو انسانی امداد بھیجنے پر اتفاق کیا جانا چاہیے۔
تیسری تجویز: غزہ سے صیہونی حکومت کا فوری فوجی انخلاء ، غزہ کی زمین اور حکومت فلسطینیوں کی تھی اور فلسطینی عوام کی منتخب حکومت ہے۔
چوتھی تجویز: اسلامی ممالک کی طرف سے صیہونی حکومت کے ساتھ ہرقسم کے سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو منقطع کرنا۔ اس سلسلے میں صیہونی حکومت کے خلاف تجارتی پابندیوں بالخصوص توانائی کے شعبے میں تعاون کو ترجیحی بنیادوں پر تعلقات قطع کرنے چاہیے۔ نیز اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ میں عوامی سطح آگاہی مہم چلانے کے ساتھ تعاون کیا جائے۔
پانچویں تجویز: اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ جارح اور قابض حکومت کی فوج کو قاتل اور دہشت گرد تنظیم ڈکلئیر کر دیں۔
چھٹی تجویز: حالیہ جنگ میں نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث حکام کو خصوصا صہیونی اور امریکی مجرم رہنماؤں کے خلاف مقدمہ چلانے اور سزا دینے کے لیے بین الاقوامی عدالت کی تشکیل عمل میں لائی جائے ۔
ساتویں تجویز: اس سربراہی اجلاس میں اسلامی ممالک کی منظوری سے غزہ کی فوری تعمیر نو کے لیے خصوصی فنڈ کا قیام عمل میں لایاجائے ۔
آٹھویں تجویز : مختلف اسلامی ممالک سے فلسطینی عوام کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی سامان پر مشتمل قافلے بھیجاجائے۔
نویں تجویز: المعمدانی ہسپتال پر ہونے والی دلخراش بمباری کے دن کو انسانی نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرم کا دن قرار دینا۔
دسویں تجویز: اگر صیہونی حکومت کے جنگی جرائم جاری رہتے ہیں اور امریکی حکام کی ہمکاری اس مجرمانہ انسانیت کے خلاف جنگ میں جاری رہتی ہے تو اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ فلسطینی عوام کو مقابلے کےلئےاسلحہ فراہم کرکے غاصب صہیونی حکومت کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کریں۔
آپ نے یہ تجاویز پیش کرنے کے بعد آخر میں بیان کیا کہ یہ سب فوری اور قلیل المدتی حل ہیں لیکن پائیدار اور طویل المدتی حل ، جو رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے تجویز کیا تھا اور آج اقوام متحدہ میں درج ہے، وہ ایک واحد فلسطینی ریاست کا قیام ہے جس کی حدود بحر سے نہر (بحرالمیت سے دریائے اردن ) تک ہے۔ اور یہ راہ حل اس جمہوری اصول پر مبنی ہے جس کی بنیاد پر "ہر فلسطینی ایک ووٹ ہے خواہ مسلمان، عیسائی یا یہودی ہو" اور اسلامی جمہوریہ ایران اس نقطہ نظر کی کھل کر حمایت کرے گا۔
لیکن بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ دوسرے اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت کسی مؤثر اقدام کی جانب اشارہ نہ کرسکے نیز اجلاس کے اختتام پر بھی کسی ایسی کمیٹی کو تشکیل نہیں دیا گیا جو غزہ کے حالات کی تحقیق کر کے رپورٹ پیش کرے یا کوئی ایسی کمیٹی تشکیل پاتی جوغزہ میں فوری امداد رسانی کا کام اپنے ذمہ لیتی بلکہ برعکس امریکی سرپرستی میں اس اسرائیلی جارحیت کے مقابل عملی طور پر صرف اسلامی جمہوریہ ایران اور مزاحمتی بلاک ہی مظلوم فلسطینیوں کی ممکنہ مدد کر رہے ہیں اور کھل کر اپنی حمایت اور مدد کا اعلان کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
Add new comment