خودسازی اور تزکیہ نفس ایک ایسا عمل ہے جس کی اسلام میں بہت زیادہ تاکید وارد ہوئی ہے لیکن خودسازی اور تزکیہ نفس کا آغاز مختلف افراد کے لحاظ سے فرق کرتا ہے ایک غیر مسلمان کیلئے اس کا آغاز اسلام قبول کرنے سے ہوتا ہے لیکن وہ افراد جو دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے ہیں ان کے لئے خودسازی کا آغاز ، توجہ اور بیدار ہونا ہے جیسا کہ قرآن میں پروردگار مومنین کو خطاب کرکے ارشاد فرما رہا ہے : ایمان والو اپنے نفس کی فکر کرو۔ (۱) یا دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے : ایمان والو! اللہ ، رسول اور وہ کتاب جو رسول پر نازل ہوئی ہے اور وہ کتاب جو اس سے پہلے نازل ہوچکی ہے سب پر ایمان لے آؤ۔ (۲) پس خود کو آلودگیوں سے دور کرنے کیلئے سب سے پہلے اس جانب متوجہ ہونا اور اس بابت بیداری ہے۔ اور بیداری کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ کہاں سے شروع کرے یہ خود ایک توجہ اور بیداری ہے اور اس کے ذریعہ انسان نے خود سازی اور تزکیہ نفس کے میدان میں پہلا قدم رکھ دیا ہے اور اسے یہ سمجھ میں آگیا ہے کہ حیوانی حیات سے نکل کر انسانی حیات کی جانب سفر کرنے کی ضرورت ہے ، اللہ تبارک و تعالی نے انبیاء کرام کا سلسلہ اسی لئے بھیجا ہے تاکہ وہ بشریت کو حیوانی زندگی سے نکال کر انسانی زندگی کی جانب لا سکیں۔ (۳)
اس کے بعد توبہ کا مرحلہ آتا ہے یعنی جو خطائیں سرزد ہوگئیں ہیں جو غلطیاں ہوگئیں ہیں ان کی تلافی کرنا جو دوسروں کو حقوق ضائع کئیں ہیں ان کی معافی تلافی انجام دینا ، اللہ کے جن حقوق کی رعایت نہیں کی ہے ان کی ادائیگی اور قضا بجا لانا۔ البتہ یہ توبہ اس عزم و ارادہ کے ساتھ ہو کہ دوبارہ وہ گناہ سرزد نہ ہوں۔ (۴) جیسا کہ وہ دعا جو مبعث کے سلسلے سے امام موسی کاظم علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے اور مرحوم شیخ عباس قمی نے اسے مفاتیح الجنان میں ذکر کیا ہے اس میں یہ فقرہ آیا ہے : میں نے اس بات کو جانا کہ تیری راہ کے سالک کیلئے سب سے بڑا توشہ سفر وہ عزم و ارادہ ہے کہ جس کے ذریعہ وہ سالک تجھے انتخاب کرتا ہے۔ (۵)
اس کے بعد کا مرحلہ معصیت کو ترک کرنے اور واجبات کو انجام دینے کا مرحلہ ہے ، اس مرحلہ میں انسان اپنے علم کے مطابق واجبات الہی کو بجا لائے اور اپنے علم کے مطابق محرمات الہی کو ترک کرے ، اگر انسان ایسا کرتا ہے تو خداوند متعال ، علم کے نئے نئے دروازے اس پر کھول دیتا ہے اور جن چیزوں کو انسان نہیں جانتا پروردگار عالم اس علم سے سرفراز فرماتا ہے ، اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے جب تک انسان اپنے علم کے مطابق عمل کرتا رہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں : جو اپنے علم کے مطابق عمل کرے تو خداوند متعال جو چیزیں نہیں جانتا اس علم کا وارث اسے بنائے گا۔(۶) یہ اس آیت کریمہ کے مطابق ہے جس میں پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے : اور جو لوگ ہماری خاطر جدوجہد کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے راستے دکھا دیتے ہیں۔ (۷)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: سورہ مائدہ آیت ۱۰۵ ، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ۔
۲: سورہ نساء آیت ۱۳۶ ، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ۔
۳: امام خمینی رح ، شرح چهل حدیث ، ص ۷۶۔
۴: ملکی تبریزی ، میرزا جواد ، رسالۀ لقاء الله ، ص ۵۲۔
۵: ابن طاووس ، الاقبال ج ۳ ص ۲۷۷ ؛ شیخ عباس قمی ، مفاتیح الجنان ، دعای روز مبعث ، الإمام الكاظم عليه السلام ـ مِن دُعائِهِ في شَهرِ رَجَب ـ : وقَد عَلِمتُ أنَّ أفضَلَ زادِ الرّاحِلِ إلَيكَ عَزمُ إرادَةٍ يَختارُكَ بِها۔
۶: علامہ محمد باقر مجلسی ، بحار الأنوار ج ۴۰ ، ص ۱۲۸ ، مَن عَمِلَ بِما يَعلَمُ وَرَّثَهُ اللَّهُ عِلمَ ما لَم يَعلَم۔
۷: سورہ عنکبوت آیت ۶۹ ، وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا۔
Add new comment