صوفیت سے مقابلہ
تصوف اور صوفی افکار سے مقابلہ آپ کے اقدامات میں سے ایک بہت اہم قدم ہے ، ایک دن امام حسن عسکری علیہ السلام نے سنا کہ احمد بن ہلال نام کا ایک شخص اپنی خودنمائی کرتے ہوئے دھوکہ دینے والے الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے شیعوں کے خالص عقائد پر حملہ آور ہے اور اپنے انحرافی صوفیانہ افکار کو لوگوں میں رائج کر رہا ہے جبکہ بعض افراد امام علیہ السلام سے اس کی تعریفیں کرنے لگے کہ وہ بہت اچھا انسان ہے اس نے ۵۴ حج انجام دئے ہیں جس میں ۲۰ مرتبہ پیدل حج انجام دیا ہے ، (۱) لیکن امام علیہ السلام نے بہت واضح الفاظ میں عراق میں اپنے نمائندوں کو لکھا : اِحْذَروا الصُّوفِیَّ الْمُتَصَنِّعَ ، اس صوفی بناوٹی شخص سے اجتناب کرو۔(۲) دوبارہ چند افراد امام حسن عسکری علیہ السلام کے پاس آئے تاکہ احمد بن ہلال کے سلسلے سے آپ کی نگاہ کو بدل دیں ، لیکن امام علیہ السلام نے بہت واضح الٖفاظ میں فرمایا : اس بناوٹی شخص ابن ہلال کے سلسلے سے میرا حکم تم تک پہنچ چکا ہے جسے تم جان چکے ہو ، خدا اس پر رحمت نہ کرے اسے کبھی بھی نہ بخشے ان گناہوں کی وجہ سے جو اس نے انجام دئے ہیں خدا اس کی لغزشوں کو نہ بخشے ، وہ بغیر ہماری اجازت کے اور ہم سے رضایت لئے بغیر ہمارے امور میں دخالت کرتا ہے ، استبداد رائے دکھاتا ہے ، اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق عمل کرتا ہے ، جو اس کا دل چاہتا ہے اور جس کا وہ ارادہ کرتا ہے ہمارے امور میں انہی کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ، خدا نے ارادہ کیا ہے کہ اسے دوزخ میں داخل کرے۔ (۳) امام حسن عسکری علیہ السلام صوفی اور اس مسلک پر چلنے والے افراد سے بہت سختی سے پیش آتے تھے لہذا آپ نے اپنے ایک بیان میں جو ایک لائحہ عمل کی شکل رکھتا ہے اپنے تمام شیعوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : آگاہ ہوجاؤ یہ لوگ مومنین کے لئے (حق کے راستے پر بیٹھے ہوئے) ڈاکو ہیں ، لوگوں کو ملحدین اور منکرین کے طریقہ کی جانب بلانے والے ہیں لہذا جو بھی ان سے روبرو ہو اسے چاہئے ان سے دوری اختیار کرے ، اور اپنے دین و ایمان کو ان سے بچائے۔ (۴)
غلو آمیز افکار سے مقابلہ
غالی وہ افراد تھے جو آئمہ طاہرین علیہم السلام کو ان کی حد سے بڑھا دیتے تھے اور ان کی گفتار و رفتار آئمہ طاہرین علیہم السلام کی گفتار و رفتار کے برخلاف تھی ، غلو کرنے والے افراد اور اس فکر کی جانب مائل افراد سے امام حسن عسکری علیہ السلام نے بہت شدید مقابلہ کیا ، انہیں خود سے دور کیا ، اپنے شیعوں کو ان سے ہر قسم کے رابطے اور ان کی جانب رجحان سے منع کیا اور بہت واضح الفاظ میں ان سے بیزاری کا اظہار کیا ، کیونکہ یہ فکر ، اسلامی عقائد اور شیعہ مکتب کو شدید نقصان سے دوچار کر رہی تھی اور اس فکر کے بہت برے نتائج سامنے آتے لہذا آئمہ طاہرین علیہم السلام نے آغاز ہی سے اس فکر کا مقابلہ کیا اور اس کے خطرات سے اپنے شیعوں کو آگاہ کیا اور ان کے سلسلے سے شدید ترین تعبیرات کا استعمال کیا تاکہ اسلام اور مکتب تشیع کو ان سے بچایا جاسکے۔
جاری ہے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: کشی ، محمدبن عمر، رجال الکشی ، ص ۵۳۵۔
۲: کشی ، محمدبن عمر، رجال الکشی ، ص ۵۳۵ ، اِحْذَروا الصُّوفِیَّ الْمُتَصَنِّعَ۔
۳: کشی ، محمدبن عمر، رجال الکشی ، ص ۵۳۵ ، ۔۔۔قَالَ، وَ كَانَ رَوَاهُ أَصْحَابُنَا بِالْعِرَاقِ لَقُوهُ وَ كَتَبُوا مِنْهُ، وَ أَنْكَرُوا مَا وَرَدَ فِي مَذَمَّتِهِ، فَحَمَلُوا الْقَاسِمَ بْنَ الْعَلَا عَلَى أَنْ يُرَاجِعَ فِي أَمْرِهِ! فَخَرَجَ إِلَيْهِ: قَدْ كَانَ أَمْرُنَا نَفَذَ إِلَيْكَ فِي الْمُتَصَنِّعِ ابْنِ هِلَالٍ لَا رَحِمَهُ اللهُ، بِمَا قَدْ عَلِمْتَ لَمْ يَزَلْ لَا غَفَرَ اللهُ لَهُ ذَنْبَهُ وَ لَا أَقَالَهُ عَثْرَتَهُ يُدَاخِلُ فِي أَمْرِنَا بِلَا إِذْنٍ مِنَّا وَ لَا رِضًى، يَسْتَبِدُّ بِرَأْيِهِ، فَيَتَحَامَى مِنْ دُيُونِنَا، لَا يُمْضِى مِنْ أَمْرِنَا إِلَّا بِمَا يَهْوَاهُ وَ يُرِيدُ، أَرْدَاهُ اللهُ بِذَلِكَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَصَبَرْنَا عَلَيْهِ حَتَّى بَتَرَ اللهُ بِدَعْوَتِنَا عُمُرَهُ، وَ كُنَّا قَدْ عَرَّفْنَا خَبَرَهُ قَوْماً مِنْ مَوَالِينَا فِي أَيَّامِهِ، لَا رَحِمَهُ اللهُ! وَ أَمَرْنَاهُمْ بِإِلْقَاءِ ذَلِكَ إِلَى الْخَاصِّ مِنْ مَوَالِينَا، وَ نَحْنُ نَبْرَأُ إِلَى اللهِ مِنِ ابْنِ هِلَالٍ لَا رَحِمَهُ اللهُ، وَ مِمَّنْ لَا يَبْرَأُ مِنْهُ۔
۴: شیخ عباس قمی ، سفینۃ البحار ، ج ۵ ، ص ۱۹۸ ، ۔۔۔اَلا اِنَّهُمْ قُطّاعُ طَریقِ الْمُؤمِنینَ، وَالدُّعاةُ اِلی نِحْلَةِ الْمُلْحِدینَ، فَمَنْ اَدْرَکَهُمْ فَلْیَحْذَرْهُمْ، وَلْیَصُنْ دینَهُ وَ ایمانَهُ۔
Add new comment