عالم اسلام کا دھڑکتا دل ، قبلہ اول ، ارض انبیاء ، سرزمین مقدس فلسطین ، دشمن کی مکاریوں ، ہماری غفلت اور حکمرانوں کی ایک پیچیدہ تاریخی خیانت کے نتیجے میں ، صیہونیوں کے غاصبانہ تصرف میں آگئی ۔
جس کی شروعات اس طرح ہوئی کہ دنیا کے کچھ طاقتور یہودی سرمایہ داروں اور مذہبی افراد نے یہودی آبادی کے لئے ایک الگ ریاست کی تشکیل کا نقشہ کھینچا اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے لئے کسی سرزمین کا انتخاب کرتے اس زمانے میں مشرق وسطی میں برطانیہ کے بہت اہم سامراجی اہداف تھے جس میں سب سے اہم مقصد مسلمانوں کو ہر طرح کے اقتدار سے باہر رکھنا اور ان سے قدرت کو چھین کر دنیا کو اپنے زیر اقتدار لانا تھا۔ لہذا اس مکار روباہ نے سوچا کہ چلو اچھا ہے ، ہمارے مقصد کو یہ یہودی ہماری پشت پناہی میں انجام دیں گے اور استعمار ان کے ذریعہ اپنا مشکل ہدف بھی پورا کر لے گا۔ لہذا اس سرزمین پر قبضہ چند پیچیدہ مقاصد اور منصوبوں کے تحت انجام پایا جس کا ایک مقصد مسلمانوں کو دوبارہ ایک طاقتور حکومت حاصل کرنے سے روکنا تھا۔(۱)
پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں جب عثمانیہ سلطنت کو شکست ہوئی اور فاتح طاقتوں کے درمیان مسلم علاقوں کی تقسیم کا خفیہ معاہدہ طے پایا جس کے نتیجہ میں برطانیہ فلسطین کی سرزمین پر قابض ہوگیا (۲) اور برطانیہ نے صیہونیوں سے مدد و تعاون کا وعدہ کر لیا(۳) تو پوری دنیا سے یہودیوں اور مشرقی یورپ سے کچھ اوباش قسم کے غیر یہودیوں کو یہودی بناکر فلسطین لایا گيا (۴) تاکہ جرمنی میں ہٹلر کے ذریعہ نسل پرستی کی قربانی بننے والے یہودیوں کی مظلومیت کا رونا روکر اور ان کے پسماندگان کی حمایت کے نام پر امت مسلمہ کی مقدس سرزمین پر ایک اسلام دشمن غاصب حکومت کا قیام عمل میں لایا جا سکے اور تیرہ صدیوں سے مسلمان جس سرزمین پر آباد تھے انہیں اپنی سرزمین سے بے دخل کردیا جائے اور ان کے ساتھ ہر طرح کا غیر انسانی رویہ روا رکھا جائے اور ان کے اوپر ہونے والے ظلم سے آنکھیں موند لی جائیں اور اس کے برعکس غاصب ظالم اسرائیل کو ہر طرح کی مراعات حاصل ہوں ان کی ہر سیاہ و سفید پر حمایت کی جائے۔
یہودیوں کو پہلے مرحلے میں برطانیہ کی مدد ملی پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد جب امریکا عالمی منظر نامہ پر ایک قدرت بن کر ابھرا تو یہ لوگ برطانیہ سے رفتہ رفتہ دور اور امریکا کے قریب تر ہوتے گئے اور اس سرپرستی کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
قبضے کا طریقہ کار یہ اپنایا گیا کہ پہلے مرحلے میں جنگ کا راستہ اختیار نہیں کیا گیا بلکہ پہلے مرحلے میں مکر و حیلے سے کام لیتے ہوئے فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا اور پھر جو زمینیں ان کی ملکیت میں آئیں ان کو بڑی سنگدلی قساوت اور درندگی کے ساتھ ان کسانوں سے خالی کرایا جانے لگا جو اس پر کھیتی کرتے تھے۔ کہیں بھی جاکر مار پیٹ کرتے ، لوگوں کو قتل کردیتے ، فلسطین کے اصلی و حقیقی باشندوں سے صیہونیوں کا برتاؤ بڑا سنگدلانہ اور تشدد پسندانہ تھا۔ ان کے ساتھ کسی طرح کی رعایت نہیں برتی جاتی تھی۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: اکرم زعیتر، سرگذشت فلسطین یا کارنامه سیاه استعمار، علی اکبر هاشمی رفسنجانی، (تهران: دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، ۱۳۶۲) ، ص۹۵۔
۲: عبدالوهاب، تاریخ نوین فلسطین، انتشارات امیرکبیر، ۱۳۶۶ ش، ص ۲۶۰ و ۲۸۳۔
۳: مجید صفاتاج، ماجرای فلسطین و اسرائیل، تهران: دفتر نشر فرهنگ اسلامی، ۱۳۸۰ ، ص ۹۵ و ۹۶۔
Add new comment