انسانوں کی خلقت کے آغاز ہی سے پروردگار عالم نے انسانوں کی فطرت میں دو طرح کے صفات حق و باطل ، فساد و تقوا قرار دیئے ہیں ، حضرت ادم صفی اللہ کا ترک اولی اور انہیں زمین پر بھیجا جانا ، جرم و جنایت ، زیادتی اور دوسرے کے حقوق کی پائمالی فرزندان ادم کے ہاتھوں انجام پایا ، اس دن سے لیکر اج تک ہر شب روز ہم انسانی معاشرہ میں انجام پانے والی جنایتوں اور حق تلفی کے شاھد ہیں ، انسانوں کے حیوانی اوصاف نے کثیر تعداد میں قربانیاں لی ہیں ، لہذا خداوند متعال نے پیغمبروں کو مبعوث کرکے ، کتابیں اور صحیفے نازل کر کے انسانوں کے تحفظ اور ان کی بقا کے اسباب و وسائل فراہم کئے ، حیوانی اوصاف کی بھڑکتی اگ بجھانے کے لئے انسانوں کو عزت و احترام اور سماجی حقوق کی رسی میں باندھا ، ان کے فطری حقوق کا دفاع کیا تاکہ معاشرہ میں حرج و مرج اور فساد پیدا نہ ہو ۔
دفاع ایک عقلی اور منطقی فارمولا ہے جو گذشتہ زمانے میں بھی تمام دینی اور غیر دینی معاشرہ میں موجود تھا ، اس کی جڑیں انسانوں کی خلقت کے ھمراہ ہے ، تمام حقوقی مراکز اور اس کے طرفداروں میں اس کی خاص اھمیت ہے اور سبھی اسے قبول کرتے ہیں ، انسانی معاشرہ نے حقوقی قوانین تحریر کرنے اور حکومت تشکیل دینے سے پہلے مختلف شکلوں اور صورتوں میں حق کے دفاع کو مانا اور قبول کیا ہے ، دوسروں کی حیوانیت اور حملے کے مقابل اپنا اور اپنی ناموس کا تحفظ ، بے دفاع افراد اور مال و دولت کی حفاظت میں دشمن کے حملے کا دفاع ، قابل قبول ہے ۔
قران کریم نے بھی انسان کو اپنے دفاع کی دعوت دی ہے «وَلَوْ لا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الأرْضُ وَلَکِنَّ اللهَ ذُو فَضْلٍ عَلَی الْعَالَمِینَ ؛ اور اگر اسی طرح خدا بعض کو بعض سے نہ روکتا رہتا تو ساری زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن خدا عالمین پر بڑا فضل کرنے والا ہے» ۔ (۱)
اکثر شیعہ فقھاء جیسے رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ نفس اور جان کی حفاظت میں دفاع مطلقا واجب ہے اور متجاوز کے مقابل تسلیم ہونا جائز نہیں ہے البتہ شھید اول اور دوم ، جسم و جان کا دفاع اس وقت واجب جانتے ہیں جب دفاع کرنے کی طاقت موجود ہو کہ اگر دفاع کی طاقت موجود نہ ہو تو حملہ کرنے والے کے برابر تسلیم ہونا جائز ہے ۔
اصبغ بن نباتہ امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ اپ نے فرمایا: خداوند اس انسان سے خوشنود ہوتا ہے جو کسی انسان پر حملہ ور درندہ یا چور کا دفاع کرے ۔ (۲)
محمد بن فضیل امام رضا علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے اس چور کے سلسلہ میں فرمایا جس نے حاملہ خاتون پر حملہ کیا اور پیٹ میں بچے کی موت کا سبب بنا ، خاتون نے اس پر چاقو سے حملہ کر کے اس قتل کر ڈالا تو امام علیہ السلام نے فرمایا «چور کا خون مباح ہے» ۔ (۳)
اسرائیل اور اس جیسی خونخوار مزاج طاقتیں جو دنیا کے مختلف گوشہ میں مظلوموں کے خون سے ہولی کھلینے میں مصروف ہیں ان کے مقابل دفاع ہر انسان کا فطری ، سماجی اور دینی وظیفہ ہے ، اسرائیل ایک مدت سے مظلوم فلسطینیوں کا خون بہانے میں مصروف ہے پھر بھی کچھ تعصب پرست طاقتیں بھڑیا صفت اسرائیل کی جنایتوں اور قتل عام کو جائز اور مظلوم فلسطینیوں کے دفاع کو ناجائز بتاتے ہیں جبکہ اپنا ، اپنے خاندان کا اور اپنے مال و دولت کا دفاع ہر کسی کا فطری حق ہے اور اس دفاع میں اگر دشمن کا جانی اور مالی نقصان بھی ہوجائے تو عقلائے عالم اسے جائز سمجھتے ہیں مگر افسوس اسلامی جمھوریہ ایران کے سوا تمام اسلامی اور غیر اسلامی طاقتیں اسرائیل کی پشت پناہی کرتی ہیں اور انہوں نے مظلوم فلسطینیوں کو یک و تنہا چھوڑ دیا ہے مگر «أَلَا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ؛ خدا کا وعدہ سچا اور حق ہے» ۔ (۴) کہ یہ زمین کمزروں کا ورثہ ہے «أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ؛ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے» ۔ (۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
۱: قران کریم ، سورہ بقرہ ، ایت ۲۵۱ ۔
۲: جواھر الکلام ، ج ۴۱ ، ص ۶۶۰ ۔
۳: وسائل الشیعہ ، ابواب قصاص نفس ، ح۲ ۔
۴: قران کریم ، سورہ یونس ، ایت ۵۵ ۔
۵: قران کریم ، سورہ انبیاء ، ایت ۱۰۵ ۔
Add new comment