حجاز کے اس جاہلی ماحول میں آپ نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں ، مظلوم کے ناصر اور مددگار بنیں ، دنیا کو ظلم اور جور سے پاک دنیا میں تبدیل کرکے دنیا کو وحی اور عقل کی بنیادوں پر آگے لیکر بڑھیں تاکہ معاشرہ میں سماجی انصاف اورعدالت کا مزاج پیدا ہوسکے اسی لئے انبیاء کی بعثت اور آسمانی کتابوں کے نازل ہونے کا ایک مقصد قیام عدالت بیان ہو رہا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے : یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلیلوں (معجزات) کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل تاکہ لوگ عدل و انصاف کے ساتھ قیام کریں۔(۱)
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام اپنی آخری وصیت میں اپنی اولادوں اپنے شیعوں اور تمام انسانون کو وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : ظالم کے دشمن اور مظلوم کے ناصر و مددگار بنو۔(۲)
سیرت مرسل اعظم کا ایک بے نظیر واقعہ جس کی اس دور میں نظیر نہیں ملتی ، قیام امن کے لئے پہلی مرتبہ عرب کی سرزمین پر پیش آنے والا حادثہ ہے جسے تاریخ ’’حلف الفضول ‘‘ کے نام سے جانتی ہے اور تاریخ بشری میں یہ واقعہ ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ زبیدی قبیلہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص مکہ مکرمہ میں تجارت کا سامان لے کر آیا اور قریش کے ایک سردار عاص بن وائل(۳) نے یہ سب سامان خرید لیا ؛ لیکن اس کا حق اس کو نہیں دیا ، زبیدی نے سرداران قریش کی حمایت حاصل کرنا چاہی ؛ لیکن قوم و قبیلہ کا تعصب اور عاص بن وائل کی حیثیت و وجاہت اور جاہلی ثقافت نے آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور انھوں نے اس زبیدی کا ساتھ دینے سے انکار کردیا اور اس کوسخت وسست کہہ کر واپس کردیا ،اب زبیدی نے کوہ ابو قبیس کی بلندی سے اہل مکہ سے فریاد کی اور ہر باغیرت و حق وانصاف کے حامی شخص سے مدد کی درخواست کی (۴) ، اس دادخواہی کو سن کر مکہ کے چند غیرتمند جوان عبد اللہ بن جدعان کے مکان پر جمع ہوئے ، ان غیرت مند جوانوں محسن انسانیت محبوب کبریا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ بھی تھے جبکہ اس وقت آپ کی عمر صرف بیس سال تھی ، سب نے مل کر عہد وپیمان کیا کہ وہ سب ظالم کے مقابلہ اور مظلوم کی حمایت میں ایک ہاتھ کی طرح رہیں گے اور جب تک ظالم سے مظلوم کا حق نہ دلوا دیں چین سے نہ بیٹھیں گے ، قریش نے اس معاہدہ کانام ’’حلف الفضول ‘‘ رکھا ، اور سب مل کر عاص بن وائل کے پاس گئے اور زبیدی سے زبردستی لوٹا ہوا مال مکہ کے اس ظالم سے واپس لے کر اس مظلوم اور بے سہارا اجنبی شخص کو واپس کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس معاہدہ سے بہت راضی اور خوش تھے ، اور بعثت کے بعد بھی آپ نے اس معاہدہ کی تعریف و تمجید کی اور فرمایا کہ میں عبد اللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدہ میں شریک تھا، جس میں اگر اس کے نام پر اسلام کے بعد بھی مجھے بلایاجائے تو میں اس کی تکمیل کے لیے تیارہوں. (۶)
یہ معاہدہ آج سے چودہ پندرہ صدیوں قبل جبکہ بشریت اپنے تاریک دور میں زندگی گذار رہی تھی اور اکثر علاقے تمدن سے بے بہرہ وحشی زندگیاں گذار رہے تھے جہاں دوسروں کے حقوق کی کوئی جگہ نہ تھی لہذا اس دور میں ایسا معاہدہ ، جس کی نذیر آج ماڈرن زمانہ میں بھی عملی طور پر دیکھنے کو نہیں ملتی ، بہت بڑا امتیاز اور نہایت حسین کردار ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
پیغمبر کی اسی سیرت اور اسلامی تعلیمات کی تاکید کی وجہ سے آج پوری دنیا میں محرومین مستضعفین اور مظلوموں کا حامی جمہوری اسلامی ایران ہے اور اسرائیل کے مظالم کے مقابل ، ملت مظلوم فلسطین کی حمایت کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: سوہ حدید آیت ۲۵ ، لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۔
۲: نہج البلاغہ مکتوب نمبر ۴۷ ، كُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً وَ لِلْمَظْلُومِ عَوْناً۔
۳: عاص بن وائل وہی شخص ہے جس نے نبی ص کو ابتر کا طعنہ دیا تھا اور اس کے جواب میں سورہ کوثر نازل ہوا ( الطوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج۱۰، ص۴۱۸ ) اور یہی وہ شخص جس کا شمار ان پانچ افراد میں ہے جو رسول کا مذاق اڑا رہے تھے اور ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی (شیخ صدوق ، الخصال ، ج ۱، ص ۲۷۹ ؛ طبرسی ، مجمع البیان ، ج ۶ ، ص ۵۳۳ ؛ فخرالدین رازی ، مفاتیح الغیب ، ج ۱۹ ، ص ۱۶۵) یہ عمرو بن عاص ، معاویہ بن ابی سفیان کے مشیر خاص کا باپ بھی ہے (ابن أثیر، أسد الغابة ، ۱۴۰۹ق ، ج ۳، ص۳۶۲) ۔
۴: اور اس نے یہ اشعار پڑھے ، يا للرجال لمظلوم بضاعته ، ببطن مكّة نائي الدار والنفر ، ومحرم أشعث لم يقض عمرته ، يا للرجال وبين الحجر والحجر ، إنّ الحرام لمن تمت كرامته ، ولا حرام لثوب الفاجر الغدر۔ (بلاذری ، انساب الاشراف ، ج۲، ص۲۳؛ مسعودی ، مروج الذهب ، ج۳ ، ص۹ ؛ یعقوبی ، تاریخ یعقوبی ، ج۲ ، ص۱۷)۔
۵: ابن هشام ، سیرة النبویه ، ج۱، ص۱۴۱ـ۱۴۲؛ ابن سعد ، طبقات ، ج۱، ص۱۲۹؛ ابن حبیب ، کتاب المُنَمَّق ، ص۵۳ ؛ بلاذری ، انساب الاشراف ، ج۲، ص۲۴، ۲۶ـ۲۷۔
Add new comment