امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور علمی فکری انقلاب کا زمانہ ہے اور اس دور کو علم وفکر اور دانش و حکمت کی نشر و اشاعت کے زرین دور سے تعبیر کیا جانا چاہئے ، آپ نےعلوم و فنون اور حکمت کے سرچشمے جاری کئے ، ہزاروں شاگرد جن کی زبانوں پر قال الصادق اور قال الباقر کا ورد رہتا تھا تربیت کئے ، ہر علم اور ہر فن کے ماہر آپ کے شاگردوں میں پائے جاتے تھے لیکن اسی کے ساتھ یہ دور وہ دور تھا جبکہ مختلف فاسد عقائد ، غلط نظریات ، منحرف افکار اور متعدد کلامی و فقہی مکاتب اور فرقے حتی کہ ملحدانہ سوچ بھی عالم وجود میں آئی اور تیزی سے اپنی آئیڈیا لوجی کو پھیلانے کا بھی کام ہونے لگا لہذا اس وقت صحیح اسلام کے نمائندوں اور رسول اللہ کے حقیقی جانشینوں نے ڈٹ کر ان انحرافی افکارونظریات اور فاسد عقائد و آئیڈیالوجی کا مقابلہ کیا اور نہایت متقن اور مضبوط دلائل کے ذریعہ ان کا بطلان ثابت کیا ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ زمانہ کا حقیقی امام بادشاہ اور اس کے سکوں پر پلنے والے فقہاء اور علماء نہیں ہیں بلکہ اس دور میں امام عصر و امام زمان ، مخزن علوم انبیاء امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں۔(۱)
موجودہ دور میں جبکہ بارش کے مینڈھک کی طرح نت نئے فاسد عقیدے باطل نظریات اور انحرافی مکاتب اپنا سر اٹھا رہے ہیں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم آئمہ معصومین علیہم السلام خصوصا امام جعفر صادق علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کریں تاکہ آپ کی سیرت کی روشنی میں عصر حاضر کے باطل افکار کا مقابلہ کیا جاسکے۔
آپ کے دور میں نئے نئے افکار ، عقائد ، نظریات اور فلسفے سامنے آئے جدید کلامی و فقہی مکاتب تشکیل پائے لہذا ان انحرافات کے مقابل جب امام جعفر صادق علیہ السلام کی سیرت اور زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ نے ان افراد کی ایک طرف سے ہدایت اور راہنمائی کی ہے تو دوسری طرف سے ان کے باطل فرسودہ اور بوسیدہ نظریات کی عمارت کو زمین بوس کیا ہے۔
انحرافی افکار سے مقابلے کے طریقے
آپ نے دو طریقوں سے مقابلہ کیا :
الف۔ ہدایت اور راہنمائی کے ذریعہ علمی بساط کو پھیلا کر با استعداد افراد کی تربیت کرکے احادیث کو زندہ کرکے آل محمد علیہم السلام کی فقہ کو لوگون کے سامنے بیان کرکے اور اسے دنیا کے گوشہ و کنار میں پہنچا کر مطالب کی وضاحت کرکے مسائل کو روشن کرکے بحث و گفتگو میں شرکت کرکے اپنے شاگردوں میں مختلف موضوعات پر ایسے شاگردوں کی تربیت کرکے جو بحث و گفتگو کرسکیں مناظرے انجام دے سکیں نیز مختلف مکاتب فکر کے رہبروں کو صحیح راستہ دکھا کر۔
ب۔ جو افراد فاسد تھے اور ان کے اصلاح کی امید نہ تھی اور دنیا پرستی کی وجہ سے انہوں نے حق کے راستے سے آنکھیں موند لیں تھیں ان سے تعلقات کو قطع کرکے ان کی مجالس سے لوگوں کو روک کر ان کے عقائد اور نظریات کو جھٹلا کر ان پر لعن اور ان کی تکفیر کرکے۔(۲)
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: معارف ، مجید ، پژوهشی در تاریخ حدیث شیعه ، ص ۲۹۰ و ۲۹۱۔ کلینی ، الکافی ، ج ۸ ، ص ۹۳۔
۲: جمعی از مولفان زیر نظراحمد رضا خضری ، تاریخ تشیع ، ص ۲۴۸۔
Add new comment