خلاصہ: جوانوں کی شادی کی رکاوٹوں کو دور کرنا تمام بزرگوں کا فریضہ ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فطرت کے اعتبار سے ہر انسان کے اندر کچھ خواہشات پائی جائی ہیں، ضروری ہے کہ خدا کی جانب سے عطاء کردہ ان خواہشات کو شرعی اعتبار سے پورا کیا جائے، لیکن بعض جوان مشکلات کا بہانہ بناتے ہوئے شیطان کے راستے کو اپنا لیتے ہیں. اس مقام پر گھر اور خاندان کے بزرگوں کو چاہئے کہ وہ اس جوان کو شیطان کے راستہ پر جانے سے روکیں اور اس کی فطری خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور ان کی شادی کے لئے وسائل کو فراہم کریں کیونکہ خداوند متعال نے اس کی بہت زیادہ تأکید کی ہے اور اس میں سکون کو قرار دیا ہے: «وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ؛ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیاہے تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اورپھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبانِ فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں»[سورہ روم؛ آیت۲۱]، اور معصومین(علیہم السلام) نے شادی کی ترغیب کے لئے بہت زیادہ فائدوں کو بتایا ہے جن میں سے ایک میں امام صادق(علیہ السلام) اس طرح ارشاد فرمارہے ہیں: «مَنْ تَزَوَّجَ أَحْرَزَ نِصْفَ دِينِه؛ جس نے شادی کی اس نے اپنے آدھے دین کی حفاظت کرلی»[کافی، ج۵، ص۳۲۹]، اور دوسری حدیث میں امام(علیہ السلام) ارشاد فرمارہے ہیں: «ركْعَتَانِ يُصَلِّيهِمَا الْمُتَزَوِّجُ أَفْضَلُ مِنْ سَبْعِينَ رَكْعَةً يُصَلِّيهَا أَعْزَب؛ شادی شدہ کی دو رکعت بہتر ہے کنوارے کی ستر رکعتوں سے»[کافی، ج۵، ص۳۲۸]۔
*محمد ابن یعوقب کلینی، دار الكتب الإسلامية، تھران، چوتھی چاپ، ۱۴۰۷ق۔
Add new comment