عقیلہ بنی ہاشم حضرت زینب سلام اللہ علیہا حضرت امام حسین علیہ السلام کی چہیتی بہن کربلا کے میدان میں موجود تھیں ، اپ نے اپنی نگاہوں سے معرکہ کربلا دیکھا ، دکھ درد برداشت کیا ، مصیتبیں اٹھائیں اور تحریک کربلا میں اہم کردار کیا جسے ہم اس مقام پر خلاصہ کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔
۱: امام وقت یعنی حسین ابن علی علیہما السلام کو قتل ہونے سے بچانا اور ان کی یاری و مدد کے لئے دوسروں کو بلانا
عصر کے وقت جب حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یہ دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام زمین کربلا پر منھ کے بل گرے ہوئے ہیں ، دشمنوں نے انہیں اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے اور اپ کے قتل کا ارادہ ہے تو خیمہ سے باہر نکل پڑیں اور عمر سعد کو خطاب کرکے کہا : «یابن سَعد! اَیُقتَلُ اَبُو عبداللّه وَ انتَ تَنظُرُ اِلَیهِ؟»[1] اے پسر سعد ! کیا ابوعبداللہ [امام حسین علیہ السلام] قتل کئے جارہے ہیں اور تو کھڑا دیکھ رہا ہے ؟!
جب پسر سعد نے ان کی فریاد نہ سنی تو لشکر یزید کو خطاب کرکے کہا : «اَما فیکم مُسلِمٌ؟»[2] کیا تم سے کوئی مسلمان نہیں ہے ۔
پھر بھی کسی نے کوئی جواب نہ دیا اور جب امام حسین علیہ السلام گھوڑے سے زمین پر ائے تو فرمایا: «وا اخاه، واسیّداه، وا اهل بیتاه، لیت السماء انطبقت علی الارض ...»[3] اہ میرے بھائی ، اہ میرے سید و سردار، اہ میرے اہل بیت ، اے کاش آسمان زمین پر گرپڑتا ۔
۲: امام وقت کی حفاظت اور دلداری
امام سجاد علیہ السلام ۱۰ محرم کو ہونے والی جنگ میں شدید بیمار تھے اور چونکہ بیمار سے جہاد ساقط ہے [4] اسی بنیاد پر اپ نے امام حسین علیہ السلام کے رکاب میں یزیدیوں سے جنگ نہ لڑی ، حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے ان کی تیمار داری کی ذمہ داری سنبھالی اور جب یزیدیوں نے خیام حسینی میں اگ لگادی تو انہیں جلتے ہوئے خیموں سے باہر نکال کر لائیں ۔[5]
ابن زیاد نے جب کوفہ میں حضرت امام سجاد علیہ السلام کو قتل کرنے کا حکم دیا تو اپ نے خود کو ان سے چسپاں کرلیا اور فرمایا : اے پسر زیادہ کافی ہے ، خدا کی قسم میں ان سے الگ نہ ہوں گی اگر تو انہیں قتل کرنا چاہتا تو مجھے بھی قتل کردے ۔[6]
یا جب گیارہ محرم کو اسیران کربلا کوفہ کی جانب کوچ کرنے لگے اور اھل حرم کو شھداء کے لاشوں کے درمیان سے لے جایا گیا تو اپنے عزیزوں خصوصا امام حسین علیہ السلام کو بے گور و کفن دیکھ کر امام سجاد علیہ السلام کی حالت غیر ہونے لگی اس وقت حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے انہیں دلاسا دیا [7] اور فرمایا : میرے لال یہ لاشے ایسے ہی نہ رہیں گے بلکہ یہ اسی مقام پر دفن ہوں گی اور اس مقام پر تمھارے بابا کا حرم بنے گا جو دنیا کے عقیدتمندوں زیارتگاہ ہوگا ۔[8]
۳: پیغام کربلا کی اطلاع رسانی
حضرت امام حسین علیہ السلام شھادت کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور امام سجاد علیہ السلام کی اہم ذمہ داری یہ تھی کہ وہ کربلا کے پیغام کو دنیا کے کانوں تک پہنچائیں تاکہ کربلا تاریخ کے دامن میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوجائے اور یزید و یزیدی بے آبرو و رسوا ہوجائیں ، حضرت امام حسین علیہ السلام اور اپ کے با وفا ساتھیوں کا مقصد تحریک و شھادت زندہ و پایندہ رہے کہ اپ دونوں یعنی حضرت امام سجاد علیہ السلام اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اس کام کو بھی بخوبی انجام دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1]. ابو مخنف، وقعة الطف، تحقیق شیخ محمد هادی یوسفی غروی، قم، مجمع جهانی اهل بیت، 1431، چاپ سوم، ص 287 و شیخ مفید، الارشاد، قم، کنگره شیخ مفید، 1413، چاپ اول، ج 2، ص 112 و طبری، محمد بن جریر؛ تاریخ الطبری، بیروت، موسسه الاعلمی، بی تا، ج 5، ص 452.
[2]. شیخ مفید، همان، ج 2، ص 112 و قمی، شیخ عباس؛ منتهی الامال، ترجمه (به عربی) سید هاشم میلانی، قم، جامعه مدرسین، 1422، چاپ پنجم، ج 1، ص 701.
[3]. مجلسی، محمد باقر؛ بحارالانوار، بیروت، موسسه الوفاء، 1403 ج 45، ص 54 و شیخ عباس قمی، همان، ج 1، ص 701 و با عبارتی مشابه در طبری، پیشین، ج 5، ص 452.
[4]. مازندرانی، ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، نجف، مطبعه الحیدریه، ج 3، ص 2060 و طبرسی، احمد بن علی؛ الاحتجاج، بی جا، دارالنعمان، بی تا، ج 2، ص 29 و ابن اثیر، الکامل، بیروت، دار صادر، 1385، ج 4، ص 79.
[5]. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمه محمد ابراهیم آیتی، تهران، علمی و فرهنگی، 1371، چاپ ششم، ج 2، ص 180 و شیخ مفید، پیشین، ج 2، ص 93. شیخ جعفر شوشتری مینویسد: «ولما قتل الحسین(ع) کانت زینب هی التی تسلی الامام زین العابدین(ع) لانه کان مریضا و هذه مرتبه عظیم لزینب» نقدی، شیخ جعفر؛ الانوار العلویه، نجف، الحیدریه، 1381، ص 435 به نقل از الخصائص الحسینیه.
[6]. فان کنت عزمت علی قتله فا قتلنی معه. سید بن طاووس، لهوف، ترجمع سید احمد فهری زنجانی، تهران، شرکت چاپ و نشر بین الملل، 1388، چاپ سوم، ص 228 و مجلسی، ج 45، ص 117 و ابن عساکر، ج 41، ص 367 و طبری، پیشین، ج 5، ص 458 و ابن اثیر، پیشین، ج 4، ص 82.
[7]. قمی، جعفر بن محمد بن قولویه؛ کامل الزیارات، بی جا، موسسه نشر اسلامی، 1417، چاپ اول، ص 445 و مجلسی، پیشین، ج 28، ص 57.
[8]. «حدثتنی ام ایمن ان رسول الله زار منزل فاطمه...» قمی، جعفر بن محمد بن قولویه؛ همان، ص 445 - 448 و مجلسی، پیشین، ج 28، ص 57.
Add new comment