فدک، ایک اسٹراٹیجیک علاقہ

Mon, 07/03/2023 - 07:38

تاریخ گواہ ہے کہ مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے 14 ذی الحجہ 7 ھ ق کو اپنی لخت جگر اور اکلوتی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ زھراء سلام کو فدک تحفہ میں دیا تھا ۔

«فدک» مدینہ سے تقریبا 140 کیلو میٹر کی دوری پر ‏«خيبر» کے نزدیک اور قلع خیبر کے بعد ، آباد اور زرخیز سرزمین تھی نیز حجاز کے یہودیوں کا اہم علاقہ یعنی مرکز شمار کیا جاتا تھا ۔

فدک کی سرحد ایک طرف سے کوہ احد، دوسری جانب سے عریش مصر تیسری جانب سے سیف البحر اور چوتھی جانب سے صحرائے جندل سے ملتی تھی ۔

فدک کی سالانہ امدنی ستر ہزار سونہ کا سکہ (دینار) تھی حتی بعض مورخین نے ایک لاکھ بیس ہزار سونے کا سکہ (دینار) بھی تحریر کیا ہے ۔

1975 عیسوی تک نشر ہونے والی رپورٹ کے مطابق فدک کا علاقہ 21 دیہاتوں پر مشتمل تھا اور 11000 افراد وہاں کی آبادی تھی ۔

فدک 7 ھجری قمری میں «خيبر» «وادى القرى‏» اور «تيما» میں یہودیوں کی شکست کے بعد ، یہودیوں کی طاقت کا مرکز بن گیا تھا جو اسلام و مسلمانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی ۔  (۱)

تاریخی نقل کے مطابق رسول اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے انتقال سے تقریبا چار سال پہلے حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور اپنے ساتھ فتح فدک کا حکم لائے ، رسول خدا اور امام علی علیہما السلام دونوں عظیم ہستیاں ضروری اسلحہ سے لیث ہوکر سرزمین فدک پہنچیں ، امام علی رسول اسلام کے شانہ پر چڑھ کر رسول خدا کی تلوار کے ہمراہ قلعہ فدک کی دیواروں پر چڑھ گئے اور اپ نے دیوار پر پہنچ کر اذان دینا شروع کیا ۔

قلعہ فدک کے یہودیوں نے گمان کیا کہ مسلمانوں نے حملہ کردیا ہے اور قلعہ فدک کی دیواروں پر چڑھ گئے ہیں ، وہ قلعہ فدک سے بھاگنا چاہ رہے تھے کہ قلعہ سے باہر رسول اسلام کو کھڑا پایا ، ناگہاں امام علی علیہ السلام بھی قلعہ فدک کی دیوارں سے نیچے اتر ائے اور اپ ان کے 18 اہم افراد کو قتل کردیا نتیجہ میں باقی افراد تسلیم ہوگئے ، فدک اس طرح بغیر جنگ اور عام مسلمانوں کے مشارکت کے فتح ہوگیا ۔

«يوشع بن نون‏» کہ جو «فدک» کے علاقہ کے یہودی رہنما ، حاکم اور ذمہ دار تھے انہوں نے صلح اور تسلیم کو جنگ پر فوقیت دیا اور عہد کیا کہ ہر سال رسول اکرم کو سرزمین فدک کی آدھی پیداوار دیں گے ، پرچم اسلام کے زیر سایہ زندگی بسر کریں گے اور مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کی سازش نہ کریں گے ، اس کے بدلے اسلامی حکومت ان کی امنیت فراہم کرے گی ۔

اسلام کی رو سے جو سرزمین بغیر جنگ کے ہاتھ آئے وہ خدا کے نبی اور ان کے بعد امام وقت کا حق ہے ، چاہے وہ اپنے پاس رکھے ، چاہے وہ کسی اور کو تحفہ میں دے دے ، چونکہ «فدک‏» رسول خدا کا ذاتی سرمایہ تھا اور اس پر کسی کا حق نہیں تھا آنحضرت نے حکم قران کے تحت حضرت زهراء (س‏) کو تحفہ میں دے دیا ۔ (۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: صدر، محمد باقر، فدک تاریخ کے ائینہ میں، ص ۲۷ ۔

۲: فدک ، اهل بیت علیہ السلام کی حقانیت و مظلومیت نشانی، ص ۲۵۱ ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
3 + 8 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 116