تاریخ گواہ ہے کہ ۱۴ ذی الحجہ 7 ھجری قمری کو مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اپنی لخت جگر اور اکلوتی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ زھراء سلام کو تحفہ میں دیا تھا ۔
فدک کا علاقہ
«فدک» مدینہ سے تقریبا ۱۴۰ کیلو میٹر کی دوری پر «خيبر» کے نزدیک اور قلع خیبر کے بعد ، اباد اور زرخیز سرزمین تھی نیز حجاز کے یہودی اہم علاقہ شمار یعنی گڑہ شمار کیا جاتا تھا ۔
سپاہ اسلام نے «خيبر» ، «وادى القرى» اور «تيما» میں یہودیوں کو ہرانے کے بعد مدينہ کے اتری علاقہ میں موجود فوجی خلاء اور کمی کے احساس کو مسلمان لشکر سے پورا کیا اور اس طرح یہ سرزمین جو یہودیوں کی طاقت کا مرکز بنی تھی اور اسلام و مسلمانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی ، صفحہ ہستی سے مٹا دیا ۔
«يوشع بن نون» کہ جو «فدک» کے علاقہ کے یہودی رہنما ، حاکم اور ذمہ دار تھے انہوں نے صلح اور تسلیم کو جنگ پر فوقیت دیا اور عہد کیا کہ ہر سال اس سرزمین کی ادھی پیداوار رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اختیار میں دیں گے ، اس بعد پرچم اسلام کے زیر سایہ زندگی بسر کریں گے اور مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کی سازش بھی نہ کریں گے اس بدلے میں اسلامی حکومت بھی علاقہ میں ان کی امنیت کو تامین کرے گی ۔
اسلام کی رو سے وہ سرزمین جو جنگ اور فوجی طاقت کے وسیلہ حاصل ہو ، وہ تمام مسلمانوں سے متعلق ہے اور اس کا ادارہ کرنا یعنی اس مینجمینٹ اسلامی حکمراں کے ہاتھوں ہے مگر جو سرزمین بغیر کیس حملے اور جنگ کے وسیلہ ہاتھ ائے ، وہ خدا کے نبی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم اور ان کے بعد ان کے امام وقت کے ذمہ ہے کہ چاہیں تو وہ اپنے پاس رکھ لیں اور چاہیں تو کسی اور کو تحفہ میں دے دیں ۔
چونکہ «فدک» رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا ذاتی سرمایہ تھا اور اس پر کسی کا حق نہیں تھا انہوں نے حضرت زهراء (س) کو تحفہ میں دے دیا اور جیسا کہ قران کریم نے اشارہ کیا ہے اسے تحفہ میں دینے کا دو مقصد تھا ۔
۱: رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی مسلسل اور مکرر بیانات کے تحت اپ کے بعد مسلمانوں کی حکومت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے پاس تھی یعنی اپ مسلمانوں کے حکمراں تھے اور اس منصب کے اخراجات زیادہ ہیں لہذا امام علی علیہ السلام اپنے اس مقام اور منصب کے تحفظ کے لئے « فدک» کی امدنی سے استفادہ کرسکیں ۔
جاری ہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
Add new comment