اصفہان میں عبد الرحمن نامی ایک شیعہ تھا ، لوگوں نے اس سے دریافت کیا کہ تم کس طرح امام علی نقی علیہ السلام کی امامت کے معتقد ہوگئے تو اس نے کہا: میں نے ایسا معجزہ دیکھا کہ ایمان لے ایا .
میں فقیر مگر جسور اور با ہمت انسان تھا ، ایک سال اہل اصفہان نے مجھے ایک گروہ کے ساتھ فیصلے کیلئے متوکل کے پاس بھیجا ، ایک دن ہم لوگ متوکل کے محل کے دروازہ پر تھے کہ یہ ندا سنی کہ علی ابن محمد ابن رضا علیهم السلام کو لایا جائے ، میں نے حاضرین میں سے ایک مرد سے دریافت کیا یہ کون ہیں ؟ اس نے کہا علوی خاندان سے ہیں جن پر رافضی ایمان رکھتے ہیں ، گمان کیا جاتا ہے کہ متوکل نے انہیں قتل کرنے کیلئے حاضر کیا ہے ، میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہاں سے نہیں ہلوں گا جب تک نہ دیکھ لوں وہ کیسے انسان ہیں ۔
ناگہاں گھوڑے پر سوار ایک شخص حاضر ہوا ، لوگ اس کے دائیں اور بائیں صف بستہ کھڑے اسے دیکھ رہے تھے ، میں نے جیسے ہی اسے دیکھا اس کی محبت میرے دل میں اگئی ، میں نے دل میں ان کے لئے دعا کرنا شروع کیا کہ خدا انہیں متوکل کے شر سے محفوظ رکھے ، وہ لوگوں کے درمیان سے گزر رہے تھے اور ان کی نگاہیں گھوڑے کی گردن پر ٹکی تھیں وہ کسی اور جگہ نہیں دیکھ رہے تھے ، میں مسلسل ان کے لئے دعا کررہا تھا ، یہاں تک میرا ان سے سامنا ہوا ، انہوں نے مجھے خطاب کرکے کہا خدا تیری دعا قبول کرے ، تیری عمر طولانی کرے اور تیرے مال اور فرزند میں برکت دے ۔
میں ان کی ہیبت سے تھرتھرا گیا اور اپنے دوستوں کے بیچ چلا گیا ، انہوں نے مجھ سے دریافت کیا تمہیں کیا ہوا ہے ؟ میں نے کہا کچھ بھی نہیں، انہیں کچھ بھی نہ بتایا ۔
جب اصفھان لوٹا تو خداوند متعال نے حضرت کی دعا کی برکت سے مجھ پر رحمتوں کے دروازے کھول دیئے ، مجھے کثیر مال و دولت ملا ، اج میرے گھر کے اندر دس لاکھ درھم کا سامان موجود ہے جبکہ گھر سے باہر بھی دولت موجود ہے ، میرے ۱۰ بچے ہیں اور میری عمر ۷۰ سال سے زیادہ ہے ۔
جی ہاں ! میں ان کی امامت کا معتقد ہوں کیوں کہ وہ میرے دل کے راز سے اگاہ تھے اور خدا نے میرے حق میں ان کی دعا کو مستجاب کیا ۔ (۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: راوندی ، قطب الدین ، الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص ۳۹۲ ۔
«كَانَ بِأَصْفَهَانَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَ كَانَ شِيعِيّاً. قِيلَ لَهُ: مَا السَّبَبُ الَّذِي أَوْجَبَ عَلَيْكَ بِهِ الْقَوْلَ بِإِمَامَةِ عَلِيٍّ النَّقِيِّ دُونَ غَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الزَّمَانِ.
قَالَ: شَاهَدْتُ مَا أَوْجَبَ ذَلِكَ عَلَيَّ وَ ذَلِكَ أَنِّي كُنْتُ رَجُلًا فَقِيراً وَ كَانَ لِي لِسَانٌ وَ جُرْأَةٌ، فَأَخْرَجَنِي أَهْلُ أَصْفَهَانَ سَنَةً مِنَ السِّنِينَ مَعَ قَوْمٍ آخَرِينَ إِلَى بَابِ الْمُتَوَكِّلِ مُتَظَلِّمِينَ.
فَكُنَّا بِبَابِ الْمُتَوَكِّلِ يَوْماً إِذْ خَرَجَ الْأَمْرُ بِإِحْضَارِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الرِّضَا عليهم السلام، فَقُلْتُ لِبَعْضِ مَنْ حَضَرَ: مَنْ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي قَدْ أُمِرَ بِإِحْضَارِهِ؟
فَقِيلَ: هَذَا رَجُلٌ عَلَوِيٌّ تَقُولُ الرَّافِضَةُ بِإِمَامَتِهِ، ثُمَّ قِيلَ: وَ يُقَدَّرُ أَنَّ الْمُتَوَكِّلَ يُحْضِرُهُ لِلْقَتْلِ، فَقُلْتُ: لَا أَبْرَحُ مِنْ هَاهُنَا حَتَّى أَنْظُرَ إِلَى هَذَا الرَّجُلِ أَيُّ رَجُلٍ هُوَ.
قَالَ: فَأَقْبَلَ رَاكِباً عَلَى فَرَسٍ وَ قَدْ قَامَ النَّاسُ يَمْنَةَ الطَّرِيقِ وَ يَسْرَتِهِ صَفَّيْنِ يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُ وَقَعَ حُبُّهُ فِي قَلْبِي، فَجَعَلْتُ أَدْعُو لَهُ فِي نَفْسِي بِأَنْ يَدْفَعَ اللَّهُ عَنْه شَرَّ الْمُتَوَكِّلِ. فَأَقْبَلَ يَسِيرُ بَيْنَ النَّاسِ وَ هُوَ يَنْظُرُ إِلَى عُرْفِ دَابَّتِهِ لَا يَنْظُرُ يَمْنَةً وَ لَا يَسْرَةً وَ أَنَا دَائِمُ الدُّعَاءِ لَهُ. فَلَمَّا صَارَ بِإِزَائِي أَقْبَلَ إِلَيَّ بِوَجْهِهِ وَ قَالَ: اسْتَجَابَ اللَّهُ دُعَاءَكَ وَ طَوَّلَ عُمُرَكَ وَ كَثَّرَ مَالَكَ وَ وُلْدَكَ.
قَالَ: فَارْتَعَدْتُ مِنْ هَيْبَتِهِ وَ وَقَعْتُ بَيْنَ أَصْحَابِي، فَسَأَلُونِي وَ هُمْ يَقُولُونَ: مَا شَأْنُكَ؟ فَقُلْتُ: خَيْرٌ وَ لَمْ أُخْبِرْهُمْ بِذَلِكَ.
فَانْصَرَفْنَا بَعْدَ ذَلِكَ إِلَى أَصْفَهَانَ، فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيَّ الْخَيْرَ بِدُعَائِهِ وَ وُجُوهاً مِنَ الْمَالِ حَتَّى أَنَا الْيَوْمَ أُغْلِقُ بَابِي عَلَى مَا قِيمَتُهُ أَلْفُ أَلْفِ دِرْهَمٍ سِوَى مَا لِي خَارِجَ دَارِي وَ رُزِقْتُ عَشَرَةً مِنَ الْأَوْلَادِ، وَ قَدْ بَلَغْتُ الْآنَ مِنْ عُمُرِي نَيِّفاً وَ سَبْعِينَ سَنَةً وَ أَنَا أَقُولُ بِإِمَامَةِ هَذَا الَّذِي عَلِمَ مَا فِي قَلْبِي وَ اسْتَجَابَ اللَّهُ دُعَاءَهُ فِيَّ وَ لِي» ۔
Add new comment