محمد بن زيد طبری نقل کرتے کہتے ہیں: قدم قوم من خراسان على أبي الحسن الرضا عليه السلام فسألوه أن يجعلهم في حل من الخمس فقال: ما امحل هذا تمحضونا المودة بألسنتكم وتزوون عنا حقا جعله الله لنا وجعلنا له وهو الخمس، لا نجعل لا نجعل لا نجعل لأحد منكم في حل ۔ (۱)
خراسان کے کچھ لوگ امام رضا علیہ السلام کے کی خدمت میں پہنچے اور انہوں نے آنحضرت سے درخواست کی کہ ان کے لئے خمس حلال فرمادیں ، مگر آنحضرت نے فرمایا ھرگز نہیں اور حضرت نے اس بات کو تین مرتبہ تکرار کیا ۔
وہ چیزیں جس پر خمس واجب ہے
فقہاء اور مراجع تقلید نے اپنے توضیح المسائل میں یہ تحریر کیا ہے کہ سات چیزوں پر خمس واجب ہے
۱: منافع : جب انسان کو تجارت یا کسی اور طریقہ سے مال حاصل ہو اگرچہ میت کی نماز و روزہ پڑھنے سے ہی حاصل ہو، اگر اپنے اور گھرانے کے ایک سال کے خرچ سے بچ جائے تو اس کا پانچواں حصہ خمس کے طور پر ادا کیا جائے ۔
۲: کانیں : اگر کسی کو معینہ حد کی مقدار میں « سونا ، چاندی ، لوہا ، کوئلا ، فیروزہ ، عقیق نمک ، تانبہ ، پیتل اور دیگر چیز کی کان ملے تو اس پر آنے والے خرچ کے بعد بچے ہوئے حصہ کا پانچواں حصہ خمس کے طور پر ادا کرے ۔
۳: گنج یا خزانہ: گنج یا خزانہ ایسا مال ہے جو زمین یا درخت یا پہاڑ یا دیواروں میں پوشیدہ ہوتا ہے نیز اس کا مالک بھی معلوم نہ ہو ، اگر کسی کو مل جائے تو اس پر آنے والے خرچ کو الگ کرنے کے بعد اس کا خمس ادا کرے ۔
۴: حلال مال حرام مال میں مل جائے : اگر حلال مال اس طرح حرام مال میں مل جائے کہ حلال اور حرام کے درمیان فرق مٹ جائے اور اس مال کی مقدار و مالک بھی معلوم نہ ہو تو اس خمس ادا کرے ۔
۵: سمندر میں ملنے والے جواہرات: اگر کسی کو سمندر سے لؤلؤ ، مرجان ، دیگر جواہرات یا کان مل جائے تو اس پر خرچ ہونے والی رقم کو الگ کرنے بعد اگر نصاب کی حد تک بچ جائے تو اس کا خمس ادا کرے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: شیخ حرعاملی ، وسائل الشیعہ ، ج۶ ، ص ۳۷۶ ۔
Add new comment