قران کریم نے دینی صلح امیز زندگی بسر کرنے کے لئے مختلف راستے اور طریقہ بیان کئے ہیں کہ ہم اس مقام پر ان میں سے بعض کی جانب اشارہ کررہے ہیں ۔
عقائد اور افکار کی آزادی
قران کریم نے اپنی بعض ایات میں « عقیده کی آزادی » پر زور دیا ہے ، یعنی قلبی عقائد اور ذھنی مسائل کی بنیاد کچھ اس طرح ہے کہ اس میں اجبار اور اکراہ کا وجود ممکن نہیں ہے ۔ جیسا کہ سورہ بقرہ کی ۲۵۶ویں ایت شریفہ میں فرمایا : «لا اکراه فی الدین قد تبین الرشد من الغی » ۔ (۱)
ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا : و لو شاء ربک لامن من فی الارض کلهم جمیعاً أفانت تکره الناس حتی یکونوا مؤمنین » ۔ (۲) نیز سورہ کہف میں ارشاد فرمایا : «و قل الحق من ربکم فمن شاء فلیؤمن و من شاء فلیفکر» ۔ (۳) اور سورہ انعام میں کہا: «و لو شاء الله ما اشرکوا و ما جعلناک علیهم حفیظاً و ما انت علیهم بوکیل» ۔ (۴)
ان ایات اور دیگر ایات کے مطابق ، خداوند متعال اور دین اسلام نے ایمان کی اساس اور بنیاد ، زور ، زبردستی اور زیادتی پر نہیں رکھا بلکہ انسانوں کے دل و روح میں اترنے کا واحد راستہ ، منطق و استدلال بتایا ہے ، اہم یہ ہے کہ دینی حقائق اور الھی احکام لوگوں کے سامنے پیش کئے جائیں تاکہ لوگ اسے بخوبی سجمھیں اور اپنے اختیار سے خداوند متعال ، دین اسلام اور احکام اسلامی کو قبول کریں ۔
اسلام میں ازادی کا دیگر گوشہ « افکار و نظریات کی ازادی » ہے ، قران کریم نے متعدد ایات میں انسانوں کو تعقل و تدبر یعنی غور و فکر اور خدا کی خلقت پر غور کرنے کی دعوت دی ہے ، اس نے انسانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنے فائدہ اور نقصان ، اپنے منافع اور ضرر کو اپنی عقل پر پرکھیں اور پہچانیں نیز کمال و بلندی کی جانب بڑھنے میں ہر قسم کی غلامی ، گمراہی اور گندگی سے خود کو محفوظ رکھیں ۔
خداوند متعال نے سورہ فصلت میں فرمایا : «سنریهم آیاتنا فی الآفاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق أو لم یکف بربک انه علی کل شیء شهید» (۵) اور سورہ ذاریات میں فرمایا : «و فی الارض آیات للموقنین * و فی انفسکم أفلا تبصرون» ۔ (۶)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ بقره ، ایت ۲۵۶ ۔
۲: قران کریم ، سورہ یونس ، ایت ۹۹ ۔
۳: قران کریم ، سورہ کهف ، ایت ۲۹۔
۴: قران کریم ، سورہ انعام ، ایت ۱۰۷ ۔
۵: قران کریم ، سورہ فصلت ، ایت ۵۳ ۔
۶: قران کریم ، سورہ ذاریات ، ایت ۲۰-۲۱ ۔
Add new comment