(کسی چیز سے نہیں ڈرا)
بعض خواتین قند (۱) نذر کرتی اور اسے مقدس مقامات پر رکھتیں ، ہم سبھی ایک ساتھ جاکر اسے اٹھا لاتے اور مل جل کر کھاتے ۔
حاجی رفیع جنہیں ہم نہیں جانتے کہ وہ کس جگہ کے رہنے والے تھے اور ان کا حسب و نسب کیا ہے ، ان ایک چھوٹا سا موضع (دیہات) تھا ، سال میں ایک بار عاشور کے دن ، تین چار بڑی دیگوں میں حلیم پکاتے تھے ، اطراف کے تمام دیہات کے لوگ بڑے بڑے پیالے یا دیگچی لیکر حاجی رفیع کے گھر حلیم لے نے کیلئے پہنچتے تھے ۔
میرے پَرنانا حاج عبد الخالق کہ جو گھوڑے اور خچر سے مکہ معظمہ گئے تھے اور ایک سال سفر میں رہے تھے ، بعض برسوں میں سخت حالات اور شدت کی بھوک سے روبرو کر جنگلی سبزیاں کھانے پر مجبور تھے ۔
میرے پڑوس میں ایک گھر تھا جن کے پاس کچھ کھانے کو نہ تھا ، جب میری ماں کھانا پکاتیں تو ان کے بچے کھڑے ہوکر دیکھتے اور تماشائی بنے رہتے، اج تک اس لڑکی کا دیکھنا میری نگاہوں کے سامنے ہے ، میری ماں انہیں کچھ روٹیاں دے دیتیں ، یہ ماجرا ہر روز پیش آتا اور تکرار ہوتا ، بعض دن ہمارے بھائی حسین ناراض ہوتے اور ان سے جھگڑا کر بیٹھتے مگر بھوک انہیں وہاں سے روٹی لئے بغیر ہلنے کا موقع نہ دیتی ۔ (۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ
۱: شکر کی ایک قسم ہے
۲: فارسی کتاب «از چیزی نمی ترسیدم» سے اقتباس
Add new comment