(کسی چیز سے نہیں ڈرا)
جن کے یہاں دودھ کم ہوتا تھا وہ اپنا چھوٹا دودھ کا برتن دے کر کچھ دن بعد دودھ سے بھرا بڑا برتن لے لیا کرتے تھے ، ایسا گرمیوں کی ابتداء میں ہوتا تھا کیوں کہ بکریوں کا دودھ کم ہوتا ہے ، اس دوران ہم جب ماں سے دھی کا مطالبہ کرتے تو کہتی تھیں کہ نہیں بیٹا اج کا دودھ تمھاری خالہ کا ہے یا عزیز صاحب کی اھلیہ ایران کا ہے ۔
بَہار میں خاندان کے بچے ، علی خانی ، تاج علی ، احمد اور صمد کے بچوں کے ہمراہ تَنگل پہاڑی سے گزر کر موضع قَنات مَلِک اسکول جاتے ، دوپہر کا کھانا معمولا ہم لوگوں کی پیٹھ پر ہی ہوتا اور ایک یا دو روٹی کچھ مقدار میں اخروٹ یا اخروٹ اور پنیر ہوتا ، بعض اوقات کھجوریں جسے میری ماں کے ماموں زادہ بھائی ابراھیم گرمسیر علاقہ سے لیکر اتے تھے ، ہمارے ہمراہ ہوتیں ، اس قدر ان معمولی اور سادہ خوشی نیز سختیوں کی عادت ہوگئی تھی کہ یہ سب ہم سب کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا ، اور مستقل کام کرنے کی وجہ سے ہم سبھی کو خوشی اور سختیوں کا ہرگز احساس بھی نہ ہوتا تھا کہ جیسے دونوں ہی ہماری زندگی سے الگ نہ ہونے والی چیز ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ
فارسی کتاب «از چیزی نمی ترسیدم» سے اقتباس
Add new comment